• صارفین کی تعداد :
  • 2171
  • 11/6/2010
  • تاريخ :

غیبت  كے اسباب اور اس كا علاج

آگ

ویسے تو غیبت ایك عملی بیماری ھے مگر اس كا ڈائریكٹ تعلق انسان كی روح سے ھے اور یہ ایك خطرناك روحانی بحران كی علامت و نشانی ھے جس كے سوتوں كو دل و جان كے گوشوں میں تلاش كرنا چاھئے ۔ علمائے اخلاق نے اس كی پیدائش كے متعد اسباب ذكر فرمائے ھیں جن میں اھم ترین اسباب حسد، غصھ، خود خواھی، بد گمانی ھیں ۔ انسان سے جتنے بھی كام سر زد ھوتے ھیں وہ ان مختلف حالات كی پیدا وار ھوتے ھیں جن كا وجود انسان كے باطن میں ھوتا ھے اور انھیں اوصاف مذكورہ كے كسی ایك صفت كے نفس انسانی میں جڑ پكڑ لینے كی وجہ سے ۔ نفس كے اندر یہ صفت اس طرح چھپی ھوتی ھے جیسے راكہ میں چنگاری ۔ انسان كی زبان غیبت سے آشنا ھوتی ھے كیونكہ زبان ترجمان انسان ھے ۔ اور جب كوئی صفت انسان كے دل میں راسخ ھو جاتی ھے تو وہ انسان كی آنكھوں كو اندھی كر دیتی ھے اور اس كے افكار پر تسلط حاصل كر لیتی ھے ۔لوگوں میں شدت كے ساتھ غیبت كا رواج تكرار عمل اور اس كے عقوبت كی طرف سے غفلت كرنے كی وجہ سے ھوتا ھے كیونكہ ھم نے بھت سے لوگوں كو دیكھا ھے كہ وہ بھت سے گناھوں سے بچتے ھیں مگر غیبت جیسے عظیم گناہ كی طرف متوجہ نھیں ھوتے كیونكہ اس كی عقوبت سے غافل ھوتے ھیں ۔

یہ بات یاد ركھئے كہ تكرار عمل اور ضعف تعقل كی وجہ سے انسان كا كام اس منزل تك پھونچ جاتا ھے كہ اس كے نقصانات كی طرف متوجہ ھو جانے كے بعد بھی اپنی نفسانی خواھش سے صرف نظر نھیں كر سكتا ۔ كیونكہ بشر اگر چہ ایك حد تك حقائق كی طرف متوجہ ھوتا ھے اور اپنی فطرت كے مطابق جو یائے كمال رھتا ھے لیكن عمل سے مسلسل گریز اں رھتا ھے اور حصول سعادت كے لئے معمولی سا رنج و غم برداشت كرنے پر تیار نھیں ھوتاا سی لئے اپنی پست فطرتی كا محكوم ھوتا ھے ۔

جو لوگ اپنی اور دوسروں كی شرافت كی حفاظت كے پابند نھیں ھوتے وہ كسی بھی اخلاقی آئین كے پابند بھی نھیں ھوتے بلكہ ان كا اخلاقی آئین كی پابندی قبول كر لینا امر محال ھے اور جن لوگوں نے حیات كو اپنی شھوتوں كا میدان قرار دے لیا ھے اور دوسروں كے حقوق كو پامال كرتے رھتے ھیں بد بختی و بد نصیبی ان كا مقدر بن جاتی ھے ۔

ضعف اخلاق ضعف ایمان ھی سے پیدا ھوتا ھے كیونكہ ضعف اخلاق مكمل طریقہ سے ضعف عقیدہ سے تعلق ركھتا ھے كیونكہ اگر انسان قوت ایمان نہ ركھتا ھو گا تو پھر كوئی بھی چیز نہ اس كو كسب فضیلت پر آمادہ كر سكتی ھے اور نہ وہ اخلاقی پابندیوں میں اپنے كو جكڑ سكتا ھے ۔

لوگوں كو ضلالت و اخلاقی مفاسد سے نكالنے كے لئے اپنے اپنے سلیقہ و استعداد كے مطابق الگ الگ رائے ھوتی ھے لیكن (میری نظر میں) موٴ ثر ترین طریقہ یہ ھے كہ موجبات اصلاح خود لوگوں كے اندر پیدا ھو جائیں ۔ اور اسكے لئے نیك جذبات كو بیدار كرنا، فطرت كی آواز پر لبیك كھنا اور فكری ذخیرہ وں كو راہ حصول سعادت میں صرف كرنا ھے ۔ اس لئے كہ صفات ذمیمہ كے برے انجام كو سوچ كر اور ارادہ كو مضبوط بنا كر ھم اخلاقی رذائل پر كنٹرول حاصل كر سكتے ھیں اور اپنے نفسوں پر سے تاریكی كے پردوں كو ھٹا كر ان كی جگہ بلند صفات كو دے سكتے ھیں ۔

ڈاكٹر ژاگو اپنی كتاب ”قدرت و ارادہ“ میں كھتا ھے: ھم نا پسندیدہ صفات كے برے انجام كو سوچ كر اور اس عادت كے ترك كرنے كے بعد جو مصالح و منافع ھم كو حاصل ھوں گے ان میں غور كرنے پر اور پھر زندگی كے ان مختلف مواقع كو سامنے لا كرجن میں ھم اس عادت كی قربانگاہ پر بھینٹ چڑھ چكے ھیں برے صفات كا مقابلہ كر سكتے ھیں اور پھر جب چند بار اپنے اندر ان نتائج كا مشاھدہ كریں گے اور اس كے ترك كر دینے كی لذت كو محسوس كریں گے تو وسوے ھم سے دور ھو جائیں گے!!

چونكہ وجود بشر میں استعداد كمالات كی بذر افشانی كی جا چكی ھے اورمملكت جسم كو تمام دفاعی وسائل سے مجھز كیا جا چكا ھے اس لئے پھلے اس گمراھی وضلال كے منشاء كو تلاش كیا جائے اس كے بعد ناقابل تزلزل ارادہ سے اس كو لوح دل سے محو و معدوم كر دیا جائے اور اپنی غیر متناھی خواھشات كے سامنے مضبوط باندہ بنادیا جائے ۔

چونكہ انسان كے اعمال اس كی واقعیت و شرف كے مظاھر ھوا كرتے ھیں ۔ اس لئے كہ انھیں افعال سے ھر انسان كی واقعی شخصیت ظاھر ھوتی ھے اس لئے اگر انسان حصول سعادت كرنا چاھتا ھے تو اس كا فریضہ ھے كہ اپنے اعمال كا تزكیہ كرے اور خدا كو اپنے اعمال كا نگراں تسلیم كرے اور آخرت كے جزا سے خائف ھو، كتاب الٰھی پر عقیدہ ركھے كہ وہ ھر چھوٹے بڑے گناہ كا احصار كرنے والی ھے ۔

ایك فلسفی كھتا ھے:

كائنات كو بے عقل، مردہ اور بے شعور نہ كھو كیونكہ ایسا كھنے پر بے عقلی كی نسبت تم نے خود اپنی طرف دی ھے ۔ كیونكہ تم بھی اسی كائنات سے ظاھر ھوئے ھو ۔ پس اگر كائنات میں عقل و حس نھیں ھے تو خود تمھارے اندر بھی نھیں ھو گی ۔

جس قدر معاشرہ بقائے حیات كے لئے زندگی كے لوازم اولیہ كا محتاج ھے اسی قدر معاشرہ روحانی روابط كے بر قراررھنے كا محتاج ھے ۔ اگر لوگ اپنے سنگین اجتمای وظیفہ پر عمل پیرا ھو جائیں تو اپنے تكامل كے لئے معنویات سے بھت بڑا فائدہ اٹھا سكتے ھیں۔ ھمارا فریضہ ھے كہ نقصان دہ افكار كی جگہ اچھے افكار كو اپنے اندر تقویت بخشیں تاكہ ھماری روح تاریكیوں كی قید و بند سے آزاد ھو سكے اور ھم اپنی زبان كو غیبت سے محفوظ ركہ كر جاوداں مقصد سعادت كی طرف پھلا قدم اٹھا سكیں اسی طرح ھمارا فریضہ ھے كہ معاشرے میں بڑھتے ھوئے اخلاقی مفاسد كا مقابلہ كرنے كے لئے لوگوں میں ایك روحانی انقلاب پیدا كریں اور اپنے ھم نوع افراد كے حقوق كے احترام كی روح كو زندہ كر كے اصول انسانیت و معنوی بنیادوں كو استوار كریںاور حتی المقدور كوشش كریں كہ جن اخلاقی بنیادوں پر معاشرے كی بقاء موقوف ھوتی ھے ان كے استحكام كے لئے اساسی قدم اٹھائیں ۔ اگر لوگوں كے اندر ایك روحانی انقلاب پیدا ھو جائے تو یقینی طور سے حقائق كے قبول كرنے كی صلاحیت بھی لوگوں میں قوی ھو جائے گی اور پھر اس كا نتیجہ یہ ھو گا كہ اجتماعی و اخلاقی اصولوں كی مكمل طور سے رعایت ھو سكے گی ۔


متعلقہ تحریریں:

احسن انداز سے بات کرنا سیکھیں

بدخلقي

حسن خلق كے اُخروى فوائد

اخلاق حسنہ

آداب نشست

نبی اکرم (ص) کے کھانا کھانے اور آرائش کے آداب

بداخلاقى كا انجام

ظاہرى آرائش، مہمان نوازى اور عيادت  کے آداب

آپ (ص) کے رخصتی اور دوسروں کو پکارنے کے وقت اخلاق

 آنحضرت (ص) كا لوگوں كے ساتھ سلام کرنا