• صارفین کی تعداد :
  • 2014
  • 11/6/2010
  • تاريخ :

گناھوں سے آلودہ معاشرہ

غیبت

یہ ایك مسلم حقیقت ھے كہ ھمارا آج كا معاشرہ مختلف قسم كی روحانی بیماریوں میں مبتلاء ھو كر مفاسد كے بے پایاں سمندرمیں غوطہ زن ھے ۔ مادی زندگی كے اسباب و وسائل میں جتنی ترقی ھے، اسی اعتبار سے معاشرہ اخلاقی فضائل میں پیچھے ھٹ چكا ھے بلكہ امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ زندگی مزید مسموم اور درد ناك ھوتی جا رھی ھے ۔ جن لوگوں نے تكالیف سے بچنے كے لئے مسلسل كو ششیں كی ھیں وہ كثافت و پلیدگی كی آغوش میں جا پڑے ۔ اور اندرونی اضطرابات و باطنی رنج و غم كو بھلانے كے لئے برائیوں كے دلدل میں جا گرے ۔ اس قسم كے معاشرہ كی زندگی میں آفتاب سعادت كی ضو فشانی محال ھے ۔

معلوم یہ ھوتا ھے كہ جیسے معاشرے كے افراد نے اپنے كو ھر قید وبند اور ھر شرط سے آزاد كر كے انحطاط كے میدان میں آگے بڑھنے كی بازی لگا ركھی ھو ۔ اگر آپ غور سے دیكھیں تو معلوم ھو گا كہ ترقی كے روز افزوں وسائل سے بر عكس استفادہ كیا جا رھا ھے ۔ مختصر یہ كہ مادی لبھانے والی چیزیں امید و آرزو كا محور بن گئی ھیں ۔ پلیدی و نا پاكی كا اھرمن معاشرہ كے اوپر اپنا منحوس سایہ ڈال كر وحشتناك طریقہ سے نمایاں ھو گیا ھے ۔ كا ش یہ بے پناہ دولت و سر سام آورثروت گمراھی و تباھی میں صرف ھونے كے بجائے اس كا ایك ھی حصہ مكارم اخلاق كی توسیع و بلندی میں خرچ ھوتا ۔ عجیب بات تو یہ ھے كہ اخلاقی قوانین ھمیشہ سے ثابت اور نا قابل تغیر رھے ھیں لیكن نہ جانے كیوں ھمارے معاشرہ میں ھمیشہ تغیر و تحول پذیر رھے ھیں، اور مختلف صورتوں اور گونا گوں رنگوں میں نمایاں ھوتے رھتے ھیں ۔ یہ بات محتاج دلیل نھیں ھے كہ جن لوگوں كی نظروں میں فضیلت اورافراد كی شخصیت كا معیار نھیں ھے وہ لوگ قھری طور سے اس كی طرف توجہ بھی نھیں كرتے اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ھو كر جو بھی صورت زندگی میں در پیش ھو اسی پر راضی برضا رھتے ھیں ۔ ان كو اس كی كبھی فكر نھیں ھوتی كہ اس كا انجام كتنا وحشتناك ھے؟ یھیں سے یہ بات طے ھو جاتی ھے كہ تمدن نہ كبھی اچھے اخلاق كا موجد ھوا ھے اور نہ ھی كبھی معاشرے كی سعادت و اصلاح كی ضمانت لے سكتا ھے ۔

مشھور فرانسیسی ڈاكٹر كارل كھتا ھے:

ھم كو ایك ایسی دنیا كی شدید ضرورت ھے جس میں ھر شخص اپنے لئے اپنی زندگی میں ایك مناسب مكان تلاش كر سكے جس میں مادیت و معنویت كا چولی دامن كا ساتھ ھوتا كہ ھم یہ معلوم كر سكیں كہ زندگی كس طرح بسر كریں ۔

كیونكہ یہ بات تو ھم سب ھی جان چكے ھیں كہ زندگی كی گلیوں میں قطب نما اور راھبر كے بغیر چلنا بھت ھی خطرناك ھے اور اسی بات پر سب سے زیادہ تعجب ھے كہ اس كے باجود یہ خطرات ھم كو معقول زندگی كے وسائل و اسباب تلاش كرنے پر كیوں نھیں آمادہ كرتے؟ اور صحیح بات تو یھی ھے كہ جو لوگ اس حقیقت كی طرف متوجہ ھیں ان كی تعداد آٹے میں نمك كے برابر ھے ۔ زیادہ تر لوگ اپنی من مانی زندگی بسر كرتے ھیں اور یہ لوگ آج كی مادی ٹیكنالوجی سے حاصل شدہ سھولتوں كے سمندر میں غرق رھتے ھیں اور وہ كسی بھی قیمت پر تمدن جدید سے ترك استفادہ پر تیار نھیں ھیں اور نہ اس كی طرف سے چشم پوشی كے لئے آمادہ ھیں ۔ آج كی زندگی اس بڑی نھر كی طرح ھو گئی ھے جس كا پانی زمین كے نشیبی علاقہ كی طرف رواں دواں ھو ۔ اسی طرح ھماری زندگی بھی تمناؤں كے دلفریب نشیب كی طرف تیزی سے بھاگ رھی ھے اور ھر قسم كی پستی و فساد میں الجھتی جارھی ھے اور یہ صرف اس لئے كہ تمناؤں كو حاصل كر سكے اور اپنی شخصی نفع اندوزی كر سكے لوگوں نے اپنے نفوس كے لئے نئی ضرورتوں كا میدان تلاش كر لیا ھے اور بڑی شدت كے ساتھ اس میدان میں اپنی ضرورتوں كی تكمیل كے لئے دوڑ لگا رھے ھیں ۔

لیكن اسی كے ساتھ كچھ ایسی بھی خواھشات ھیں جن كی تكمیل بھت آسان ھے، جیسے غیبت، بكواس، سفسطہ وغیرہ حالانكہ یہ چیزیں شراب سے زیادہ نقصان دہ ھیں!

معاشرہ كی سب سے بڑی برائی جس كے بارے میں ھم بحث كرنا چاھتے ھیں ” عیب جوئی و غیبت ھے جس كے معنی كی وضاحت كی كوئی خاص ضرورت نھیں ھے كیونكہ ھر عام و خاص اس كے مفھوم كو سمجھتا ھے ۔


متعلقہ تحریریں:

احسن انداز سے بات کرنا سیکھیں

بدخلقي

حسن خلق كے اُخروى فوائد

اخلاق حسنہ

آداب نشست

نبی اکرم (ص) کے کھانا کھانے اور آرائش کے آداب

بداخلاقى كا انجام

ظاہرى آرائش، مہمان نوازى اور عيادت  کے آداب

آپ (ص) کے رخصتی اور دوسروں کو پکارنے کے وقت اخلاق

 آنحضرت (ص) كا لوگوں كے ساتھ سلام کرنا