• صارفین کی تعداد :
  • 6334
  • 11/1/2010
  • تاريخ :

اسلامی جمہوریت

ایران

ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلام پسندی عوام پسندی سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوام پسندی اسلام کی جڑوں میں پیوست ہے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں عوام کو نظر انداز کیا جائے۔ اس انتخاب میں عوام کے حق کی بنیاد و اساس خود اسلام ہے۔ لہذا ہماری جمہوریت جسے ہم" دینی جمہوریت" کا نام دے سکتے ہیں ایک مستقل فلسفہ اور اساس رکھتی ہے۔

دینی جمہوریت کی بنیاد مغربی جمہوریت کی بنیاد سے مختلف ہے۔ مذہبی جمہوریت، جو ہمارا انتخاب ہے، اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ انسانی فرائض و حقوق پر استوار ہے۔ یہ کوئی آپس میں طے کر لیا جانے والا معاہدہ نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو دینی فرائض اور ایمان کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔

ان حالات میں آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظریہ اور اسلامی جمہوری نظام یا دینی جمہوریت سے دنیا کو روشناس کرائیں تو یوں کہئے کہ جمہوری یعنی عوامی حکومت اور اسلامی یعنی دینی اصولوں اور تعلیمات پر استوار حکومت۔ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم نے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا ہے یہ کوئی بالکل انوکھا نظریہ ہے۔ جی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ یعنی دینی جمہوریت۔ دینی جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ الہی رہنمائی اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق کوئی نظام پروان چڑھے۔ دنیا کے نظاموں کی مشکل یہ ہے کہ وہ یا تو الہی رہنمائی اور تعلیمات سے عاری ہیں جیسے مغرب کی نام نہاد جہموری حکومتیں، جوعلی الظاہر عوام کی منتخب کردہ ہیں لیکن وہ الہی رہنمائی سے بے بہرہ ہیں، یا اگر الہی رہنمائی کی حامل ہیں یا حامل ہونے کی دعویدار ہیں تو عوامی حمایت اور انتخاب سے عاری ہیں۔ بعض ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہیں۔ جیسا کہ بہت سے ملکوں میں نظر آتا ہے۔ یعنی نہ تو عوام ملک کے امور میں دخیل ہیں اور نہ ہی وہاں الہی تعلیمات کی پابندی کی جاتی ہے۔

اسلامی ثقافت میں ان افراد کو بہترین انسان قرار دیا گیا ہے جو عوام کے لئے زیادہ مفید و کارآدم ہوں۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی پرخلوص اور بے لوث خدمت پر استوار ہے۔ یہ ان جمہوری نظاموں کے بالکل بر خلاف ہے جو عوام فریبانہ اور ریاکارانہ ہتھکنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں فریضے کی ادائگی کی حیثیت سے پوری پاکدامنی کے ساتھ خدمت کی جاتی ہے۔ اسلامی نظام میں جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی دینی اصولوں سے ہم آہنگ حکومت یعنی اس نظام میں سب کچھ اسلامی معیاروں کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ چند افراد کے درمیان طے پا جانے والا کوئی آپسی معادہ نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جہاں بھی ضرورت ہو وہاں عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی عہد و پیمان ضروری ہوتا ہے۔ یہ مغربی ملکوں کے جمہوری نظام کی مانند نہیں ہے جو آپس میں طے کر لئے جانے چند اصولوں پر استوار ہوتا ہے اور جسے جب جی چاہے آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ حکام اس خصوصیت کی حفاظت کے لئے دینی طور پر عہد کرتے ہیں اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی عظیم اصول ہے جو ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیان کردہ اصولوں میں سے ہے۔

مغربی جمہوریت کا مطلب ہے معاشرے پر حکومت کرنے والے دولتمندوں اور سرمایہ داروں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل۔ یہ نظام اسی دائرے میں محدود ہے۔ اس میں عوام کے انتخاب کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔ اگر عوام سرمایہ داروں کے مفادات کے بر خلاف کچھ چاہیں، اگر وہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی مطالبہ کریں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسے در خور اعتنا سمجھا جائے گا۔

ایک مضبوط و مستحکم فصیل ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے گرد موجود ہے جسے کسی بھی صورت میں توڑا نہیں جاتا۔ ماضی کے سوشیلسٹ ملکوں میں جو خود کو جمہوری ملک کہتے تھے یہ فصیل پارٹی کے ارد گرد ہوتی تھی۔

آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طور طریقے اور برتاؤ کی اصلاح کریں اور ملک کے حکام اگر اپنے لئے حقیقی معیار و میزان کے خواہاں ہیں تو دینی جمہوریت اکسیر ثابت ہو سکتی ہے۔ دینی جمہوریت کا ایک رخ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے فیصلے اور انتخاب کے تحت تشکیل پایا ہے یعنی خود عوام نے اس نظام کا انتخاب کیا ہے اور بنیادی ذمہ داریوں کے حامل حکمراں بالواسطہ یا بلا واسطہ خود عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ دینی جمہوریت کا دوسرا رخ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اب جب مجھے اور آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے تو ہم ان کے تئیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حقیقی معنی میں محسوس کریں۔

جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان انتخابی مہم کے تحت شور شرابا مچائے اور اس طرح لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کی کوشش کرے۔ جب لوگوں سے ووٹ مل جائيں تو پھر انہیں رخصت کر دے اور اس کے بعد ان کی طرف مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ جی نہیں جمہوریت کا پہلا مرحلہ تشکیل حکومت کی شکل میں جب پورا ہو جائے تو خدمت اور جوابدہی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

جمہوریت کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ آپ ایسے کام کی فکر میں رہیں جو اعتدال پسند افراد کی مرضی کے مطابق وسیع سطح پر عدل و مساوات کی برقراری میں مددگار ثابت ہوں۔ عام لوگوں سے رابطہ اور ان کے مفادات کا پاس و لحاظ جتنی وسیع سطح پر ہوگا وہ اتنا ہی عوام کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔

وہ اسلامی نظام جو دین و پرچم توحید کے سائے میں چل رہا ہو بالکل واضح اور صریحی الفاظ میں اور حقیقی شکل و پیرائے میں جمہوریت کی مثال پیش کر سکتا ہے۔ یہ نظام نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کے استکباری پروپگنڈوں کے بالکل بر خلاف ہے۔ وہ (مغرب والے) دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت ان کی جاگیر ہے۔ یہ ان کے لئے نا قابل برداشت ہے کہ ایک دینی و اسلامی نظام اپنے ایمانی اقدار و معیارات کی پابندی کرتے ہوئے جمہوریت کا آئینہ دار بن جائے۔ ہم نے نہ تو مشرقی حکومتوں کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے اور نہ مغربی حکومتوں کو۔ ہم نے اسلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے پوری واقفیت کی بنا پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔


متعلقہ تحریریں:

ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہو سکتا

سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہ

دشمنوں کا ادھورا خواب

لوگوں کے ایمان، سانحہ ہفتم تیر کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا راز

شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیں

خرمشہر کا یوم آزادی

امام خمینی (رح): خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا دن

یوم اسلامی جمہوریۂ ایران

شورائے نگہبان یا نگراں کونسل