• صارفین کی تعداد :
  • 2865
  • 10/26/2010
  • تاريخ :

تین ہجری کا ہندی مسلمان… رتن سَین (حصّہ دوّم)

 تاریخ اسلام

مجاوروں نے وہ تمام پتھر بھی ہٹوا دیئے جن پر تاریخیں کندہ تھیں، رتن سین کی قبر کا پتھر بھی غائب کرا دیا، مگر ان کتبوں اور پتھروں کی نقول کاغذاتِ مال میں دھنورہ تحصیل میں موجود ہیں، راجہ کنور سین کی قبر پر لگے پتھر کی عبارت کے ترجمے سے چند تاریخی حقائق اور واضح ہوجاتے ہیں، پتھر پر معجزہ ٴ شق القمر کی تاریخ 13شعبان قبل ہجرت پورن ماشی کے موقع پر لکھی ہے ،آیت اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ کی جلد 23 مطبوعہ قم میں صفحہ 18پر سورہٴ قمر کی پہلی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ معجزہ ہجرت کے نزدیک مکی زندگی کے آخری ایام میں رونما ہوا تھا اور حضور نے یہ معجزہ اُن حقیقت کے متلاشی افراد کے کہنے پر انجام دیا تھا جو مدینہ سے خدمت پیغمبر میں مکہ آئے تھے اور عقبہ میں انہوں نے حضور کی بیعت کی تھی، اس روایت کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی جلد 17کے صفحہ 35پر درج کیا ہے ،

 بعض علماء نے معجزہٴ شق القمر کو ہجرت سے 8 سال قبل بیان کیا ہے جس کو حضور نے ابو جہل و ابو لہب کے کہنے پر انجام دیا، بہر حال رتن سین کا تعلق اُسی معجزے سے ہے جو حضور نے مکی زندگی کے آخری ایام میں انجام دیا، رتن سین کے مدینہ منورہ پہنچنے کی تاریخ 5 رمضان 3 ہجری اور کھابڑی واپس آنے کی تاریخ 12صفر 8 ہجری درج ہے اور رتن سین کی قبر پر لگے پتھر پر رتن سین کی تاریخ وفات 11ہجری درج ہے رتن سین نے راجا کی قبر کے پتھر پر یہ بھی لکھوایا تھا کہ مدینہ پہنچنے پر رتن سین اور ان کے ساتھیوں کو حضرت علی کے یہاں مہمان رکھاگیا اور بہت شاندار ضیافت کی گئی …رتن سین کے مدینہ پہنچنے کے 10روز بعد 15رمضان 3ہجری کو رسول خدا کے پہلے نواسے حضرت امام حسن کی ولادت ہوئی، رتن سین نے امام حسن کو سچے موتیوں کی مالا پہنائی جو رنگ تبدیل کرکے سبز ہوگئی اس پر رتن سین کو بڑی حیرت ہوئی اور رسول خدا سے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ میرا فرزند زہر دغا سے شہید کیاجائے گا (جس سے بدن سبز ہوجائے گا) سن 4ہجری میں رسول اسلام کے دوسرے نواسے حضرت امام حسین کی ولادت 3 شعبان المعظم کو ہوئی .  

اس بچے کو دیکھ کر رتن سین بہت خوش ہوئے اور ان کے گلے میں بھی سفید سچے موتیوں کی مالا پہنائی ،رتن سین کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مالا کے موتی سرخ ہوگئے ،رسول اللہ نے اس کا سبب یہ فرمایا کہ کربلا کے میدان میں یہ میرا فرزند تین دن کا بھوکا پیاسا مع عزیز و اقربا شہید کیاجائے گا ،یہ فرماکر رسول اللہ بے ساختہ رونے لگے…رتن سین نے رسول اللہ سے 300حدیثیں بھی روایت کی ہیں جن میں چند حدیثوں کو الاصابہ فی معرفة صحابہ میں ابن حجر مکی نے ،لسان العرب و میزان الاعتدال میں ذہبی نے رتن سین کی موضوعہ حدیثوں کے طور پر بعنوان مثال نقل کیا ہے ،

حدیثیں یہ ہیں: =رتن سین کہتے ہیں کہ ہم خزاں کے موسم میں رسول اللہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھے اور ہوا چل رہی تھی جس سے پتے گر رہے تھے یہاں تک کہ اس درخت پر ایک بھی پتہ باقی نہ بچا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ جب مومن فرض نماز کو جماعت سے پڑھتا ہے تو اس سے گناہ اسی طرح ختم ہوجاتے ہیں جیسے اس درخت سے پتے=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے کسی مالدار کی عزت اس کے مال کی وجہ سے کی اور محتاج کی بے عزتی اس کی ناداری کی وجہ سے کی تو اس پر ہمیشہ اللہ کی لعنت ہوگی مگر یہ کہ توبہ کرلے=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ:جو شخص آل محمد کی دشمنی پر مرے گا وہ کافر کی موت مرے گا=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ عالم کے لباس پر اس کی دوات کی سیاہی کا نقطہ اللہ کو شہید کے پسینہ کے سو قطروں سے زیادہ پسند ہے =رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو روز عاشورا امام حسین پر گریہ کرے گا وہ قیامت کے روز اولو العزم پیغمبروں کے ساتھ محشور ہوگا. رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ روز عاشور کا گریہ قیامت میں نور تام (کا باعث ) ہوگا.

رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے تارک الصلوٰة کی ایک لقمہ سے مدد کی گو یا اس نے تمام انبیاء کے قتل میں مدد کی، اگر ہم رتن سین کو سچا مان لیں تو پھر رتن سین محدث ،صحابی ٴ رسول ،محب اہل بیت اور ہندوستان کے اولین مسلمان شمار ہوں گے ،اور اگرعلمائے رجال ابن حجر اور علامہ ذہبی کے مطابق رتن سین کو ثقہ نہ مانیں تو صحابی ٴ رسول ، محب اہل بیت اور ہندوستان کے اولین مسلمان تو تھے ہی حالانکہ مذکورہ حدیثیں بھی کسی نہ کسی راوی کے ذریعہ ہم تک پہنچ چکی ہیں …رتن سین کے علاوہ موجودہ مدھیہ پردیش کے مالوہ میں ریاست دھار کے راجہ بھوج بھی معجزہٴ شق القمر کے بعد ایمان لے آئے تھے

اور انہوں نے اپنے عہد میں تین مسجدیں ایسی بنوائیں جو آج تک صحیح حالت میں ہیں ،ایک مسجد دھار میں ہے دوسری بھوجپور میں اور تیسری مانڈوہ میں ہے جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد محمد بن قاسم کے حملے سے نہیں بلکہ رسول اسلام کے معجزہٴ شق القمر کی برکت سے ہوئی تھی.

اس کے علاوہ ایک اور ہندوستانی راجا کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ مجلسی نے اپنی 110جلدی کتاب کی 51ویں جلد میں باب 19صفحہ 253پر لکھاہے کہ یحیٰ بن منصور نے کہا کہ ہم نے ”صوح“ شہر میں ہندوستانی راجا کو دیکھا جس کا نام سرباتک (کسی ہندی نام کا بگڑا ہوا عربی لفظ)تھا اور وہ مسلمان تھا .

وہ راجا کہتاتھا کہ رسول االلہ کے دس صحابہ حذیفہ بن یمان، عمرو بن العاص، اسامہ بن زید، ابو موسیٰ اشعری، صہیب رومی اور سفینہ و غیرہ نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور میں نے اسلام قبول کرلیا اور نبی کی کتاب( نبی کا خط یا قرآن ) کو قبول کرلیا…محققین کو چاہئے کہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے تحقیق کریں، بے شمار سندیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام اپنے انقلاب کے ابتدائی ایام ہی میں وارد ہوگیا تھا. 

 ختم شد.

مصنف: سید پیغمبر عباس نوگانوی


متعلقہ تحریریں :

رسول خدا کی آخری عسکری کوشش

عہدِ جاہلیت میں عورتوں کا مرتبہ

عہد جاہلیت کے دوران توہم پرستی اور خرافات کی پیروی

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی تعلیمی و تمدنی حالت

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی دینی حالت

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی سیاسی حالت

تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت

تاریخ اسلام

یوم قدس کی تاثیر

یوم قدس منانے کی ضرورت

یوم قدس کا عقیدت مندانہ انعقاد

یوم القدس اور عالم اسلام