• صارفین کی تعداد :
  • 1741
  • 10/17/2010
  • تاريخ :

کشمیر کے لوگ جن پر صرف اس لیے ظلم ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں

کشمیر

دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک برصغیر برطانیہ کے تسلّط میں تھا۔ جب انگریز چلے گئے تو انڈیا کے مسلمانوں نے ایک الگ وطن کے لیۓ جدوجہد شروع کر دی اور یوں ہندوستان میں پاکستان کی صورت میں  ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی  ۔ بہت سارے مسلمان جو موجودہ ہندوستان میں رہ رہے گۓ  تھے پاکستان ہجرت کر گئے۔ اگرچہ کشمیر کا علاقہ جو کہ "جموں اور کشمیر" کے نام سے جانا جاتا ہے انڈیا ، پاکستان اور چائنا کی سرحدوں سے ملتا ہے، ۶۷ فیصد مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے، انڈین سیاستدانوں کی چالاکیاں اور سازشوں کی وجہ سے انڈیا کے زیر حکومت رہ گیا۔ جب سے لے کر، ۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق، چالیس لاکھ مسلمان انڈین حکومت کی طرف سے دباوَ اور ظلم کا شکار ہوئے۔

کشمیر کے مسلمانوں نے اس ظلم و ستم سے نجات کی تلاش کی اور آزادی کا مطالبہ کیا مگر ۱۹۴۷ ، ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ میں ان مطالبوں کی وجہ سے انڈین آرمی کی جانب سے انکا خوفناک قتل عام کیا گیا۔ اس قاتلانہ حملے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور چار ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انکی عصمت دری کی گئ۔

90 کی دہائی میں انڈین حکومت نے ظلم و زیادتی کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کوجیلوں میں  بند کر دیا اور تشدد کے ذریعے شہید کر دیا۔ گھروں میں لوٹ مار کی گئی اور اخبارات جو کہ اسلامی تعلیمات مہیّا کر رہے تھے بند کر دیے گئے۔ ظالم حکمران مزید آگے بڑھ گئے، پانی پر لگائے گئے بند کے دروازوں کو کھول دیا اور کشمیر اور پاکستان میں سیلاب کے ریلے کو چھوڑ دیا جسکی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی اموات ہوئیں اور پورے علاقے میں زبردست تباہی ہوئی۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک تقریبا اسّی ہزار مسلمان کشمیر میں شہید کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے ساتھ انڈین جیلوں میں زیادتیاں کی گئیں اور دس ہزار کا کچھ پتا نہیں چل سکا کہ کہاں گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے لوگوں پر اس ظلم وستم، جھگڑے، بغیر کسی وجہ کے قید، تشدد اور مالی پاپندیوں کی وجہ صرف اور صرف یہ کہ وہ مسلمان ہیں۔ وہ یہ حربہ استعمال کر کے مسلمانوں کو متحد اور مضبوط ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔

تقریبا اسّی ہزار مسلمان اب تک انڈین حکومت کے ظلم کی وجہ سے کشمیر میں شہید ہو چکے ہیں۔

کچھ مغربی ممالک اپنے مفادات کے نقصان کے ڈر سے کشمیر کے لوگوں پر اس ظلم وستم کی پالیسی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے لہٰذا انڈیا کو آزادی ہے کشمیر کے مسلمانوں پر اس ظلم و ستم کو جاری رکھنے کی۔ یہاں تک کہ اگر عالمی میڈیا تنظیمیں اگر کچھ عرصے سے کشمیر میں ہونے والے واقعات کو اٹھاتی ہیں جو کہ کئی سالوں سے جاری ہے تو اسے "انڈیا کے علاقے میں ہونے والے لوکل جھگڑوں" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مختصرا یہ کہ، تشدد، قتل اور انسانیت کے خلاف ظلم کو صحیح طریقے سے نہیں بیان کیا جاتا، اس ظلم و ستم کی کھلے عام مذّمت نہیں کی جاتی، اسی وجہ سے اس ظلم و ستم پر خاموشی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے تمام مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زمین پر رہنا چاہتے ہیں جہاں پر وہ اپنے بچّوں کی امن اور حفاظت کے ساتھ پرورش کر سکیں۔

 آج ضرورت اس امر کی ہے کہ  تمام مسلمان فوری طور پر کشمیری مسلمان بھائیوں کی آزادی اور قید سے چھٹکارے کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔

کشمیر

اللہ نے قرآن می بہت سی آیتوں میں بتایا کہ مسلمان ایک دوسرے کے سر پرست ہیں اور اس نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے جب مدد کی ضرورت ہو اور ایک دوسرے کی حفاظت اور دیکھ بھال کا حکم دیا ہے۔ اس نے علیحدہ ہونے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بھی منع کیا ہے۔

مومن مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار) دوست ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں اور زکوات دیتے ہیں ، اللہ کی اور اسکے رسول کی با ت مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا۔

سورہ  التوبہ ۷۱

اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔ سورہ  آل عمران ۱۰۳

اللہ مندرجہ ذیل آیت میں مومنوں کو مخاطب کر کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم کرتا ہے۔

اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور انکا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے ہیں اور جب ان پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو صرف بدلہ لیتے ہیں۔

سورہ الشوری ۳۸، ۳۹

کشمیر

آج یہ وہ وقت ہے کہ تمام مسلمان اللہ کے اس حکم کو بجا لائیں۔ یہ بلکل نہیں بھولنا چاہئیے کہ تمام اسلامی ممالک ہر مسلمان پر ہونے والے تشدد، قتل، اپاہج کے ذمہ دار ہیں صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد ان لوگوں کی آزادی اسلامی دنیا کے ہاتھوں ہو گی جب وہ حضرت مہدی کی روحانی قیادت کے نیچے دنیا کے آخری دور میں متحد ہونگے اور وہ دور یہ ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ لہذا پوری دنیا میں موجود مومنوں کو اپنے ضمیر کی آواز سننی چاہئیے اور یہ مان لینا چاہئیے کہ یہ ان پر فرض ہے اور بغیر کوئی وقت ضائع کیے مظلوم بھائیوں کی آزادی کے لیے کام کرنا چاہئیے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے ایک راستہ ہے اسلامک یونین کا قیام، اسلامی دنیا کا اتحاد۔ناانصافی، ظلم، اختلافات، جھگڑے اور بد نظمی صرف اسلامک یونین کے قیام سے ہی ختم ہوگی۔ جب اسلامک یونین کا قیام ہوگا تبھی مسلمانوں کو اس قتل عام اور اپنی زمین پر ڈر کر رہنے سے آزادی نصیب ہوگی۔

تحریر : ڈاکٹر رضا رضوی