• صارفین کی تعداد :
  • 3648
  • 10/13/2010
  • تاريخ :

تین ہجری کا ہندی مسلمان… رتن سَین

بسم الله الرحمن الرحیم

تاریخ نویسوں نے ہندوستان میں اسلام کی آمد حجاج بن یوسف کے نو عمر کمانڈر محمد بن قاسم سے منسوب کی ہے

اور یہ ایسی ذہنیت کا نتیجہ ہے جو اسلام کو تلوار کے زور پر پھلتا پھولتا مانتی ہے، یہاں بھی یہی ظاہر کیا گیا ہے کہ محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ہندوستان میں اسلام کی داغ بیل پڑ گئی ،  لیکن تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور سرکار رسالت مآب کے معجزہٴ شق القمر سے ہندوستان ضیاء اسلام سے منور ہوگیاتھا، کتاب ”بیان الحق و صدق المطلق“ مطبوعہ تہران 1322ھ میں فخر الاسلام لکھتے ہیں کہ حافظ مرّی نے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے کہ بعض مسافروں نے بتایا کہ ہم نے ہندوستان میں ایسے آثار دیکھے جو معجزہ ٴ شق القمر سے متعلق تھے …جن میں سے ایک درگاہ ضلع جے پی نگر کی تحصیل دھنورہ میں نوگانواں سادات سے تقریباً 16کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے گنگا کے کنارے موجود ہے.

جس میں کنور سین اور ان کے وزیر حاجی رتن سین دفن ہیں اور تحصیل دھنورہ کے مال خانے میں اس کا اندراج درگاہ شق القمر کے نام سے ہے، اس درگاہ کی 300 بیگھا زمین ہے جس کا بیشتر حصہ خورد برد ہوچکا ہے، اور اس درگاہ پر ہولی کے بعد آنے والی جمعرات کو عرس و میلا بھی لگتا ہے …

13شعبان قبل ہجرت پورن ماشی کے موقع پر ہندوستان میں جب راجا مہا راجاوں نے چاند کو دو حصوں میں دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی، نجومیوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عربستان سے محمد نام کے پیغمبر نے یہ معجزہ دکھایا ہے، راجاوٴں نے اپنے نمائندے تصدیق کے لئے عربستان روانہ کئے جن میں شمالی ہندوستان کی چھوٹی سی ریاست کھابڑی کے راجا کنور سین نے بھی اپنے وزیر رتن سین کو مدینہ ٴ منورہ کے لئے روانہ کیا…کھابڑی ریاست موجودہ اترپردیش کے ضلع جے پی نگر و بجنور کے دریائے گنگا سے متصل علاقوں پر محیط تھی ،

اس ریاست میں پراکرت زبان بولی جاتی تھی…رتن سین کے مدینہ جانے اور مع ساتھیوں کے ایمان لانے پر تو سب متفق ہیں مگر ان سے متعلق جو داستانیں سنائی جاتی ہیں اُن سے علماء نے اختلاف کیا ہے ،

شمس الدین بن محمد جزری کہتے ہیں کہ میں نے عبد الوہاب بن اسماعیل صوفی سے سنا کہ جب ہم 675 ہجری میں واردِ شیراز ہوئے تو ہماری ملاقات شیخ معمر محمود بن رتن سین سے ہوئی.  

انہوں نے ہمیں بتایا کہ میرے بابا رتن سین نے معجزہٴ شق القمر دیکھا تھا اور یہی معجزہ ان کی ہندوستان سے عرب ہجرت کا سبب بنا اور جب رتن سین مدینہ پہنچے تو مسلمان (جنگ احزاب کے لئے) خندق کھود رہے تھے، (رتن سین) نے رسول اللہ کی صحبت اختیار کی …

(تذکرة الموضوعات، مولف محمد طاہر بن علی ہندی، متوفی 986ھ ناشر امین ،قج، بیروت، لبنان)

رتن سین کے بارے میں عرب و عجم محققین و علماء نے 600سال سے زائد طولانی عمر بیان کی ہے جس کا مآخذ سنے سنائے قصے ہیں”دائرة المعارف قاموس عام لکل فن و مطلب“کی آٹھویں جلد مطبوعہ لبنان میں ر،ت،ن کے ذیل میں رتن کا تذکرہ کرتے ہوئے معلم بطرس بستانی نے لکھا ہے کہ : رتن ہندی نے دوبار رسول اللہ کی زیارت کی اور آپ نے انہیں طولانی عمر کی دعا دی جس سے اِن کی عمر 600 سال سے زائد ہوئی ،

علامہ ابن حجر مکی نے الاصابہ فی معرفة الصحابہ میں اور علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال اور لسان العرب میں رتن سین کی طولانی عمر کے قصے کو فرضی قرار دیاہے،

ہندوستان میں جو دستاویز رتن سین اور ان کے راجا کنور سین سے متعلق موجود ہیں ان سے رتن سین کی عمر 600سال ثابت نہیں ہے ،بلکہ سن 3ہجری میں رتن سین مشرف بہ اسلام ہوئے ، 3ہجری سے 7 ہجری تک مدینہ میں قیام کیا

اور 11ہجری میں وفات پائی، لہٰذا رتن سین کی 600 سال عمر والا قصہ بے بنیاد ہے ، ماسٹر سیداختر عباس نوگانوی رٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج امروہہ کی تحقیق کے مطابق رتن سین سے متعلق معلومات کنور سین کی قبر پر لگے کالے قیمتی پتھر (سنگ موسیٰ) سے ریلوے پولس انسپکٹر سید صادق حسین، نانوتہ، سہارنپور اور مولوی ارتضیٰ حسین امروہوی مقیم ریاست رامپور کو 1931ء میں حاصل ہوئی تھیں جس کا پتہ سید صادق حسین نانوتوی کو سید احمد حسین رضوی حسن پوری نے دیا تھا .

انسپکٹر صادق حسین اور مولوی ارتضیٰ حسین صاحبان نے اس پتھر کی عبارت پڑھنے اور ترجمہ کرنے کے لئے مرادآباد کے محلہ کسرول سے پنڈت برہما نند کو تلاش کیا جن کی عمر اُس وقت 95 سال تھی ، پنڈت برہما نند نے اس پتھر کو دیکھ کر بتایا کہ یہ پراکرت زبان میں ہے ، بہر حال پنڈت برہما نند ترجمہ کرتے رہے اور یہ لوگ لکھتے رہے ، اس کی اجرت پنڈت برہمانند نے اُس وقت (1931میں) 300روپیہ لی تھی، راجا کنور سین کی قبر کے اس پتھر پر یہ عبارت حاجی رتن سین نے 25ذی قعدہ8ہجری کو راجا کے دفن کے بعد کندہ کرائی تھی،رتن سین نے اس پتھر پر دیگر اہم باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھ تھا کہ میں نے 3سال خدمت رسول اللہ میں رہ کر بھوج پتر پر حالات تحریر کئے ہیں جو کتاب کی شکل میں مجاور کے پاس ہیں اور اس کو ہدایت کردی ہے کہ اس کو ضائع نہ کرے ،جب صادق حسین کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مجاور شیخ عبدالرزاق سے کہا کہ اگر آپ واقعی اس درگاہ کے مجاور ہیں تو ضرور آپ کے پاس بھوج پتر پر لکھی کتاب ہوگی ورنہ اصل مجاور کوئی اور ہے اس بات کو سن کر شیخ عبدالرزاق گھر میں گئے

اور ٹین کے ڈبے میں بند مطلوبہ بھوج پتر پر لکھی ہوئی کتاب نکال کر لائے اور دور سے صادق حسین کو دکھادی ،صادق حسین نے کہا کہ یہ کتاب امانت کے طور پر ترجمہ کے لئے دے دو ،اس پر مجاور شیخ عبدالرزاق نے کہا کہ میں اسے چھونے بھی نہیں دوں گا ،اس کے بعد 1975میں صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر صاحب نوگانوی نجفی، مولانا روشن علی صاحب سلطان پوری نجفی، مولانا مشکور حسین صاحب نوگانوی اور مولانا نعیم عباس صاحب نوگانوی وغیرہ بھی درگاہ پہنچے اور مجاور سے کتاب کاترجمہ کرانے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس نے ایک نہ سنی ، اگر مجاور با شعور مسلمان ہوتا تو از خود کوشش کرکے اس کتاب کا دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں ترجمہ کراکے شائع کرادیتا جس سے تاریخ نویسوں کو بہت مدد ملتی اور اثبات حق کے لئے یہ کتاب بہترین دستاویز شمار ہوتی ،مجاور اور اس کے گھروالوں نے نہ یہ کہ کتاب ترجمہ کے لئے نہ دی بلکہ پتھر کی عبارت کا ترجمہ سن کر راتوں رات قبر سے اکھاڑ کر پتھر بھی غائب کرادیا،جب بے شعور مسلمانوں کی یہ حالت ہے تو ہم حکومت کے محکمہ ٴ آثار قدیمہ سے کیاشکایت کریں ،اگر آثار قدیمہ نے اس اہم دستاویز کو ضائع ہونے سے بچالیا ہوتا تو آج محققین کو اس میں شک نہ ہوتا کہ ہندوستان نورِ اسلام سے حضرت محمد مصطفی کی حیات طیبہ ہی میں منور ہو گیاتھا .

جاری ہے

  مصنف: سید پیغمبر عباس نوگانوی


متعلقہ تحریریں :

عہدِ جاہلیت میں عورتوں کا مرتبہ

عہد جاہلیت کے دوران توہم پرستی اور خرافات کی پیروی

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی تعلیمی و تمدنی حالت

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی دینی حالت

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی سیاسی حالت

تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت

تاریخ اسلام

یوم قدس کی تاثیر

یوم قدس منانے کی ضرورت

یوم قدس کا عقیدت مندانہ انعقاد

یوم القدس اور عالم اسلام