• صارفین کی تعداد :
  • 3199
  • 9/28/2010
  • تاريخ :

امام جعفر صادق عليہ السلام کا دور

امام جعفر صادق(ع)

  امام محمد باقر عليہ السلام کا دور بھي ختم ہوا اور ١١٤ ھ سے امام جعفر صادق (ع) کي امامت شروع ہوئي اور ١٤٨ ھ تک جاري رہي۔ امام صادق(ع) نے اس مدت ميں دو مرحلے طے کئے۔ ايک مرحلہ ١١٤ھ تا ١٣٥ھ تک يعني بني عباس کے غلبہ يا منصور دوانيقي کي خلافت تک۔ اس دور کو آسودگي اور سکون کا دور کہا جاسکتا ہے اور اسي کے بارے ميں معروف ہے کہ بني اميہ اور بني عباس کے درميان نزاع و چپقلش کي وجہ سے آئمہ عليہم السلام کو شيعي تعليمات کي تبليغ کا موقع ميسر آيا۔ اور يہ اسي دور سے مخصوص ہے، امام محمد باقر عليہم السلام کے دور ميں يہ صورت نہيں تھي بلکہ وہ بني اميہ کي طاقت و قدرت کا زمانہ تھا اور ہشام بن عبدالملک کي حکومت تھي جس کے بارے ميں لوگ کہتے ہيں کہ و کان ھشام رجلھم چنانچہ شاہان بني اميہ ميں عبدالملک بن مروان کے بعد ہشام بن عبدالملک طاقتور شخصيت کا مالک تھا جو امام محمد باقر (ع) کے عہد تخت حکومت پر براجمان تھا۔ لہذا امام محمد باقر عليہ السلام کے زمانے ميں کسي کا کسي کے ساتھ کوئي ايسا اختلاف و تنازعہ بظاہر رونما نہيں ہوا کہ اس موقع سے امام (ع) استفادہ کر سکتے۔

تمام داخلي جنگيں اور سياسي اختلافات امام جعفر صادق عليہ السلام کے دور سے مخصوص ہيں اور وہ بھي اس ابتدائي دور سے مخصوص ہيں جب بني عباس کي دعوت بھي پوري اسلامي دنيا ميں اوج پر نظر آتي ہے۔ في الحال يہاں ان باتوں کي تشريح کا موقع نہيں ہے۔

جس وقت امام صادق عليہ السلام مسند امامت پر متمکن ہوتے ہيں پوري اسلامي دنيا افريقہ ، خراسان، فارس، ماورائ النہر الغرض مختلف اسلامي علاقوں ميں باہمي جنگوں اور محاذ آرائي کا بازار گرم تھا۔ بني اميہ کي حکومت کو شديد مشکلات کا سامنا تھا۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپني تبليغ کے لئے وہي تين نقطے محور و مرکز قرار دئيے جن کي جانب ہم سيد سجاد کي زندگي کے بارے ميں گفتگو کے دوران اشارہ کرچکے ہيں۔

يعني معارف اسلامي ، مسئلہ امامت ، نيز اس کا اہل بيت عليہم السلام سے مخصوص ہونا۔

امام صادق(ع)کي حيات کے پہلے مرحلے ميں خاص طور پر اس مذکورہ تيسرے عنصر کا مشاہدہ صاف طور پر کيا جاسکتا ہے۔ اس کا ايک نمونہ عمرو بن ابي المقدوم کي يہ روايت ہے کہتے ہيں: ’’ رايت ابا عبداللہ (ع) يوم عرفۃ بالموقف وھو ينادي باعليٰ صوتہ ‘‘ حضرت عرفات ميں لوگوں کے درميان کھڑے ہو کر عظيم اجتماع ميں با آواز بلند خطاب فرماتے ہيں اور ايک ہي جملہ کبھي اس طرف رخ کرکے اور کبھي اس طرف رخ کرکے ہر چہار طرف تين تين مرتبہ تکرار فرماتے ہيں اور وہ جملہ يہ تھا :

’’ ايھا الناس ! ان رسول اللہ (ص) کان ھو الامام ، ثم کان علي ابن ابي طالب ، ثم الحسن ، ثم الحسين ، ثم علي ابن الحسين ، ثم محمد بن علي ، ثم ھہ فينادي۔ ثلاث مرات لمن بين يديہ ولمن خلفہ و عن يمينہ و عن يسارہ اثنا عشرہ صورتا ۔‘‘

 

’’ اے لوگو! يقينا رسول اللہ ۰امام تھے ، پھر آپ کے بعد علي ابن ابي طالب ، پھر حسن، پھر حسين ، پھر علي ابن الحسين ، پھر محمد ابن علي اور اس کے بعد ’’ ھہ ‘‘ (يعني ميں)۔۔۔ مجموعا بارہ مرتبہ آپ نے ان جملوں کي تکرار فرمائي۔

راوي کہتا ہے : ميں نے سوال کيا اس (ھہ) سے کيا مراد ہے؟ کہتے ہيں : بني فلاں کي لغت ميں ، يعني ميں۔ اس سے کنايہ خود حضرت(ع)کي طرف ہے يعني محمد بن علي عليہ السلام کے بعد ميں امام ہوں۔‘‘

اس کلمہ ميں لفظ امام کا استعمال قابل توجہ ہے اور يہ اس حقيقت کي طرف نشاندہي کرتا ہے کہ امام(ع)اس طرح عوام کے ذہن کو امامت کي حقيقت سے روشناس کرتے ہوئے يہ بتانا چاہتے ہيں کہ آيا وہ لوگ جو بر سر اقتدار ہيں امامت کے سزاوار ہيں يا نہيں؟

دوسرا نمونہ يہ ہے:

’’قال قدم رجل من اھل الکوفۃ الي خراسان فدعا الناس اليٰ ولايۃ جعفر بن محمد ۔‘‘

’’ ايک شخص مدينہ سے خراسان پہنچتا ہے اور لوگوں کو جعفر ابن محمد کي ولايت (يعني حکومت) کي طرف دعوت ديتا ہے۔‘‘

آپ ديکھئے ايران ميں اسلامي انقلاب کي تحريک کے دوران وہ وقت کب آيا جب ہم کھل کر جمہوري اسلامي يا حکومت اسلامي کي بات کرسکيں؟ ہم لوگ اس پوري تحريک اور جدوجہد کے دوران برسوں تک زيادہ حکومت کے سلسلہ ميں اسلامي نظريات کي گفتگو کر پاتے تھے۔ يعني بہت ہوا تو يہ کہہ ديا کہ حکومت کے بارے ميں اسلام نے کيا اصول و ضوابط پيش کئے ہيں اور حاکم کو کن شرائط کا حامل ہونا چاہئيے۔ بس اس سے زيادہ ہم اور کچھ نہيں کہہ سکتے تھے۔ حکومت اسلامي کي تشکيل کي دعوت دينے يا کسي خاص شخص کا حاکم کے طور پر نام لينے کي نوبت نہيں آسکي تھي۔ ١٩٧٨ ء  يا زيادہ سے زيادہ ١٩٧٧ء  ميں اور وہ بھي خاص محفلوں ميں ہمارے لئے ممکن ہوسکا تھا کہ اپني جد و جہد کو حکومت اسلامي کے لئے جدو جہد کے طور پر ظاہر کرسکيں اور وقت بھي کسي کا اس کے حاکم کے طور پر معين اظہار نہيں کرسکے تھے۔

ان حقائق کي روشني ميں آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اس دور ميں لوگ اٹھتے ہيں اور مملکت اسلامي کے دور دراز علاقوں ميں جا جا کر امام صادق عليہ السلام کي حکومت کي طرف عوام کو دعوت ديتے ہيں، اس کے کيا معني ہيں؟

کيا اس کا مطلب يہ نہيں ہے، کہ اب وہ وقت قريب پہنچا جاتا ہے جس کاوعدہ کيا گيا تھا ؟ يہ وہي ١٤٠ھ کا سال ہے۔ يہ وہي چيز ہے جو آئمہ عليہم السلام کي مسلسل جدوجہد کا فطري تقاضا ہے اور اس دور ميں حکومت اسلامي کي تشکيل کي نويد ديتي ہے۔

لوگوں کو امام جعفر صادق(ع)کي ولايت و حکومت کي طرف دعوت دي جاتي ہے۔ آج ہم ولايت کا مفہوم اچھي طرح سمجھتے ہيں، گزشتہ دور ميں ولايت کے معني محبت بتائے جاتے تھے۔ لوگوں کو امام صادق(ع)کي ولايت يعني محبت کي طرف دعوت دينا؟ محبت کے لئے دعوت نہيں ہوتي، محبت کوئي ايسي چيز تو ہے نہيں جس کي معاشرے کو دعوت دي جائے ۔ علاوہ ازايں اگر ولايت کا مفہوم محبت ليا جائے تو اس حديث کے بعد کے فقرے بے معني ہوجاتے ہيں، ملاحظہ فرمائيے۔ ’’ ففرقۃ اطاعت واجابت۔‘‘ ايک گروہ نے اطاعت کي اور قبول کيا۔ ’’ و فرقۃ جحدت وانکرت‘‘ اور ايک گروہ نے انکار کيا اور قبول نہ کيا (اسلامي دنيا ميں محبت اہل بيت(ع)سے کون لوگ انکار کرتے ہيں ؟!!!)و فرقۃ ورعت ووفقيت ‘‘ اور ايک گروہ نے ورع اختيا رکرتے ہوئے خاموشي اختیار کرلي۔ تورع اور توقف کا بھي کسي طرح محبت کے ساتھ کوئي ربط سمجھ ميں نہيں آتا۔ يہ اس بات کا قرينہ ہيں کہ ولايت سے مقصود کچھ اور ہے، ظاہر ہے وہ حکومت ہي ہوسکتي ہے۔ حديث کے آخري فقرے کچھ اس طرح ہيں:’’ فخرجت من کل فرقۃ رجل فدخلوا عليٰ ابي عبداللہ ‘‘ ہر طرف سے لوگ امام(ع)کي خدمت ميں آتے ہيں اور گفتگو کرتے ہيں۔ حضرت (ع) ان ميں سے خاموشي اختيار کرنے والے ايک شخص سے فرماتے ہيں:

تم نے اس سلسلہ ميں جو توقف و تورع اختيار کيا تو اس وقت يہ تورع کيوں نہ اپنايا جب فلاں نہر کے کنارے فلاں روز فلاں مخالف اسلام عمل انجام دے رہے تھے؟! يہ ارشاد بخوبي اس بات کي نشاندہي کرتا ہے کہ وہ شخص جس نے خراسان ميں امام (ع) کي ولايت کي طرف دعوت کا فريضہ انجام ديا تھا اس نے امام (ع) کي رضامندي سے يہ کام انجام ديا تھا بلکہ ممکن ہے کہ خود امام عليہ السلام نے ہي اس کو اس بات پر مامور کيا ہو۔

يہ چيز امام صادق عليہ السلام کي زندگي کے پہلے مرحلہ سے تعلق رکھتي تھي اور آپ(ع)کي زندگي ميں ايسي علامات ملتي ہيں کہ غالباً اس طرح کي تمام چيزيں اسي پہلے دور سے مربوط ہيں۔ يہاں تک کہ منصور عباسي کي خلافت کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ منصور کے برسر اقتدار آتے ہي مشکلات کا دور شروع ہوجاتا ہے اور امام(ع)کے لئے بھي قريب قريب وہي حالات پيدا ہو جاتے ہيں جن سے امام محمد باقر عليہ السلام کي زندگي دوچار تھي۔ گھٹن چھا جاتي ہے اور طرح طرح کے دباو آپ(ع)پر پڑنے لگتے ہيں۔ حضرت(ع)کو بارہا حيرہ ، واسطہ ، رميلہ نيز دوسري جگہوں پر طلب کيا جاتا ہے يا جلاوطن کيا جاتا ہے۔ کئي مرتبہ خليفہ آپ(ع)کو خطاب کرتا ہے اور سختي کا نشانہ بناتا ہے۔ ايک مرتبہ تو خليفہ يہاں تک کہہ ديتا ہے کہ : قتلنہ

(خدا مجھے زندہ نہ رکھے اگر ميں آپ کو قتل نہ کردوں) ايک مرتبہ حاکم مدينہ کو حکم ديتا ہے کہ: ان احرق عليٰ دارہ ( حضرت۰ کے سميت آپ کے گھر کو آگ لگا دو) ۔ حضرت(ع)جلتي ہوئي آگ عبور کرتے ہيں اور بڑے ہي توکل اور اعتماد کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے ايک عجيب منظر پيش کرتے ہيں اور فرماتے ہيں: انا ابن اعراق الثريٰ انا ابن محمد المصطفيٰ (ص) ( ہم زندہ و پائندہ امام کے فرزند ہيں، محمد مصطفي کے فرزند ہيں)۔

اس چيز نے دشمنوں کو اور بھي ذليل و خوار کيا۔۔۔۔

امام جعفر صادق عليہ السلام اور منصور کے تعلقات اکثر نہايت کشيدہ رہے۔ منصور بارہا امام کو دھمکياں ديتا تھا۔ اگرچہ اس طرح کي روايات بھي ملتي ہيں جن ميں ہے کہ امام(ع)نے منصور کے سامنے اپني ذلت اور عاجزي کا اظہار کيا (معاذ اللہ)۔ يقيني طور پر ان ميں سے ايک روايت بھي درست اور قابل اعتماد نہيں ہے۔ ميں نے ان روايات کا جائزہ ليا اور تحقيق کے بعد اس نتيجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کي کوئي اصل اور حقيقت نہيں ہے۔ ان کا سلسلہ زيادہ تر ’’ ربيع حاجب‘‘ تک پہنچتا ہے جس کا فاسق ہونا قطعي اور يقيني ہے اور وہ منصور کے قريبي لوگوں ميں سے ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہيں کہ ربيع شيعہ يا دوستدار اہل بيت(ع)تھا۔ ربيع کہاں اور شيعہ ہونا کہاں؟ ربيع ابن يونس کا مطيع و فرماں بردار اور حکم کا غلام تھا اور ان افراد ميں سے تھا جو بچپن ہي سے بني عباس کے نوکروں ميں شامل ہوجاتے تھے۔ يہ رفتہ رفتہ منصور کا حاجب ہوگيا تھا اور بے پناہ خدمتوں کے عوض بالآخرہ منصب وزارت پر فائزہ ہوگيا تھا۔

جس وقت منصور مر اہے، اگر ربيع نہ ہوتا تو خلافت منصور کے خاندان سے باہر چلي گئي ہوتي اور شايد اس کے چچاو ں کا خلافت پر قبضہ ہوجاتا۔ يہ ربيع ہي تھا جو مرتے وقت تنہا منصور کے سرہانے موجود تھا اور اس کے نے منصور کے بيٹے مہدي کے حق ميں جعلي وصيت نامہ تيار کيا اور مہدي کو تخت خلافت پر بٹھاديا۔

فضل ابن ربيع جو بعد ميں ہارون اور امين کے دربار ميں وزارت پر فائز ہوا اسي کا بيٹا تھا۔ يہ خاندان ان خاندانوں ميں سے ہے جو بني عباس کي نمک خواري اور وفاداري ميں کافي مشہور ہيں اور ان کے دلوں ميں اہل بيت عليہم السلام کے لئے کسي طرح کي ارادت و محبت نہيں پائي جاتي اور ربيع نے جو کچھ امام صادق عليہ السلام کے سلسلہ ميں کہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے اور جعلي ہے اور ان تمام کوششوں کے پس پشت اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اس دور کے اسلامي معاشرے کو يہ باور کرايا جائے کہ حضرت(ع)جيسي شخصيت بھي منصور کے سامنے عاجزي اور تذليل کا اظہار کرچکي ہے۔ تاکہ دوسرے لوگ اپني حيثيت کے بارے ميں خود ہي فيصلہ کرليں۔

بہر حال منصور اور اامام صادق عليہ السلام کے تعلقات انتہائي کشيدہ تھے جو ١٤٨ھ ميں امام(ع)کي شہادت پر منتہي ہوتے ہيں۔

اقتباس از ہمارے آئمہ اور سياسي جدوجہد رهبر انقلاب آقاى خامنہ اى

بشکریہ شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام 


متعلقہ تحریریں:

حضرت امام صادق علیه السلام کا ایک معجزه

امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت پر خصوصی تحریر

امام جعفر صاد‍ق علیہ السلام کا یوم شھادت

چھٹے امام

شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام

حضرت امام صادق (ع) کی شہادت کی مناسبت پر حضرت آیة اللہ العظمی صانعی مدظلہ العالی کے بیانات

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور انقلابی دور تھا

 حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام

امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے پابند ہیں

امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض نصائح و ارشادات

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور علمی ترقی اور پیشرفت کا دورتھا