• صارفین کی تعداد :
  • 2529
  • 9/26/2010
  • تاريخ :

صیہونیزم اور ٹروریزم کی تشکیل کی وجوہات کی نتیجہ گیری

صیہونیزم اور ٹروریزم
انیسویں صدی کے آخر میں سیاسی صیہونیزم کی پیدائش اور اپنے اصلی مقصد کے حصول کیلئے برطانوی حکومت میں اس کے اثر و رسوخ نے برطانیہ کے سیاسی فیصلوں کے ساتھ مل کر اس استعماری سوچ کے حامل ملک کیلئے یہ زمینہ فراہم کیا کہ وہ 1916ء میں سایکس-پیکو معاہدے کے انعقاد اور 1920ء میں بالفور اعلان کے جاری کرنے کے بعد فلسطین کی سرپرستی اپنے ہاتھ میں لے لے اور اس طرح سے بظاہر قانونی طور پر پورے یورپ اور دنیا سے صیہونیستوں کی برطانیہ کے زیر سایہ فلسطین کی طرف مہاجرت کا زمینہ فراہم کرے۔

 اسی طرح یہود ایجنسی کو دنیا کے یہودیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر قبول کر لے اور اس ایجنسی کے طرفدار مسلح صیہونیستوں کو فلسطین کے سیکورٹی اداروں میں بھرتی کرے اور اس طرح سے 1920ء کی دہائی میں قدس پر انکے قبضے کا راستہ ہموار کر دے۔ 1930ء کی دہائی کے بعد جب برطانیہ نے یہودیوں کی بے تحاشہ مہاجرت اور صہیونیستی دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں سے خطرے کا احساس کیا تو انہیں محدود کرنے کی کوشش کی۔ یہ شدت پسند گروہ جو فلسطین میں یہود ایجنسی کے زیر سایہ سرگرم تھے، برطانیہ کے اس منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان گروہوں نے برطانیہ کے مفادات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مقامی افراد کی قتل و غارت کے علاوہ فلسطین کے اندر اور باہر برطانوی جاہ و جلال کے مظہر مراکز پر بھی حملے شروع کر دیئے۔ دوسری عالمی جنگ نے برطانیہ کی بین الاقوامی طاقت کو کم کر دیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ اپنی کالونیوں کو برقرار رکھنے پر قادر نہ تھا۔ لہذا فلسطین کی سرپرستی اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی۔ یہود ایجنسی اور عالمی صیہونیزم نے اپنی پالیسیوں میں اسٹریٹجک تبدیلی کی جسکے مقدمات 1930ء کی دہائی میں فراہم کئے گئے تھے اور امریکا کا رخ کیا۔ امریکہ جو برطانیہ کے زوال کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کی کوشش میں مصروف تھا نے اقوام متحدہ کی مدد سے صیہونیستوں کو اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچا دیا۔ اس طرح غیر فلسطینی صیہونیست مہاجروں نے فلسطینی حکومت کو غصب کر لیا اور قدس کی قابض رژیم کی بنیاد ڈال کر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دہشت گرد صہیونیست گروہوں نے 1930ء سے لے کر رژیم صیہونیستی کی تشکیل تک عالمی صیہونییزم اور برطانیہ کی سیاست اور پالیسیوں پر انتہائی گہرا اثر ڈالا جن میں سے کچھ موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

۱۔ صہیونیزم کو ایک نسل پرستانہ اور یہودیوں سے مخصوص ملک کے حصول کے راستے پر لگا دیا جو اس جمہوری حکومت کے نظریے سے یکسر مختلف تھا جو ہرٹزل نے پیش کیا تھا۔

۲۔ یہودیوں کے قومی وطن پر مبنی برطانیہ کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور برطانیہ کو یہ یقین دلوایا کہ وہ فلسطین کی دیکھ بھال پر قادر نہیں ہے جو فلسطین سے برطانیہ کے نکلنے میں انتہائی موثر ثابت ہوا۔

۳۔ دہشت گرد گروہوں کی قتل عام اور بے رحمانہ قتل و غارت کے ذریعے رعب و وحشت کی فضا قائم کرنے میں کامیابی اور برطانیہ کا ان دہشت گردانہ کاروائیوں کا موثر انداز میں مقابلہ نہ کرنا اور عرب باشندوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا فلسطین پر یہودیوں کے قبضے اور عرب باشندوں کے جلاوطن ہونے پر منتج ہوا۔

۴۔ ان دہشت گردانہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہود ایجنسی اور عالمی صہیونیزم یہ سمجھ گئے کہ اگر وہ باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھنا ہوں گی۔

بشکریہ اسلام ٹائمز


متعلقہ تحریریں:

سرزمین موعود

سیاسی صیہونیزم کی تشکیل کے اسباب

صیہونیزم اور ٹروریزم

یوم القدس اور عالم اسلام

 یوم قدس منانے کی ضرورت