ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے
تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب |
تُو ایک عافیہ تنہا کھڑی ہے اک جانب |
میں کیا کہوں تجھے اے عافیہ تُو ناداں ہے |
یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تُو مسلماں ہے |
ترا یہ جرم کہ تُو اس قدر ذہین ہے کیوں |
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں نشین ہے کیوں |
تری یہ جراتِ اظہار تیری دشمن ہے |
بھلا تُو کس لیے امریکیوں سے بدظن ہے |
ترے مزاج میں تلخی بھری بغاوت ہے |
ترے عمل سے ہویدا تری شجاعت ہے |
تجھے یہ عدل ملا ہے نہ یہ عدالت ہے |
یہ اہلِ حق سے فقط کفر کی عداوت ہے |
سو ظلم و جبر کی طاقت تجھے جھکا نہ سکی |
صراطِ حق سے ذرا سا تجھے ہٹا نہ سکی |
پہاڑ ظلم کے تجھ پر جو آہ ٹوٹے ہیں |
ہر ایک آنکھ سے رہ رہ کے اشک پھوٹے ہیں |
گلہ میں کیسے کروں اپنے حکمرانوں سے |
نہیں ہے اٹھنے کا یہ بوجھ ان کے شانوں سے |
یہ بے بصر ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا |
جو راہبر ہے وہی راہ پر نہیں آتا |
نہ اشک آنکھ میںباقی نہ دل ہے سینے میں |
ہے فرق کیا مرے مرنے میں اور جینے میں |
یہ چند لفظ ہیں تیرے لیے مری بہنا |
مجھے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہنا |
یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے |
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے |
https://www.kprupdate.com