• صارفین کی تعداد :
  • 1213
  • 9/26/2010
  • تاريخ :

بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں؟

ڈاکٹر عافیہ صدیقی

ڈاکٹر عافیہ کو  86  برس قید سنا دی گئی اور میانوالی سے طاہرہ آپا نے پوچھا ہے ”سر“ بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں : میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ جب نامراد موسموں کی بے توقیر ہوائیں چلتی ہیں تو ٹڈی دل کا پہلا حملہ حمیت کی کھیتیوں پر ہوتا ہے ۔ پھر ایک وبا پھوٹتی ہے جس کے زیر اثر رائے ساز، لکھاری اور دانشور باور کرانے لگتے ہیں کہ محکوم لوگوں کو اہل جبر کی بے مہریاں سرجھکا کر برداشت کرلینی چاہئیں کہ مقدر کا لکھا یہی ہے۔ پھر زرد رنگ کی ایک آندھی چلتی ہے اور اپنی تجوری میں ایٹم بم رکھنے والی کروڑوں کی قوم مکھیوں کی ایک بڑی سی ڈار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔

انسانی آزادیوں، ہیومن رائٹس ، حقوق نسواں ، احترام آدمیت، قانون کی عملداری ، انصاف کی کار فرمائی اور جمہوریت کی سربلندی کے پرچم بردار امریکا کو اس سے شدید خطرہ تھا ۔

 اپنے اسلحہ خانہ میں کم و بیش پندرہ ہزار ایٹمی ہتھیار رکھنے والی سپر پاور کو ڈر تھا کہ سات سال تک درندگی کی چکی میں پیسی جانے والی نحیف ونزارسی لڑکی آزاد کر دی گئی تو وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیادیں ہلا کے رکھ دے گی ۔ امریکی ریاست اور امریکی عوام کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اسے مزید 86 برس تک کسی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے ۔

”بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں“ میں طاہرہ اسلم کو کیا بتاؤں؟ حرف و بیان کی کون سی صنعت گری سے کام لوں ، تشبیہات، استعارات کی کون سی میناکاری کروں کہ طاہرہ اور اس جیسی لاکھوں کروڑوں پاکستانی بیٹیوں کی تسلی کا سامان ہو جائے ۔ عافیہ کی بہن فوزیہ کے دل میں بھی یقیناً طاہرہ والے سوال کی کسک کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہوگی ۔ اس بہادر بیٹی نے کیا کیا جتن نہیں کئے لیکن راکھ کے ڈھیرے میں کوئی توانا چنگاری نہ سلکی ۔ سلگی بھی تو شعلہ نہ بن سکی۔ ایسی چنگاریوں کو شعلہ بننے کے لئے غیرت وحمیت کی آکسیجن چاہئے جو اس آب و ہوا میں کمیاب ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاں قومی خودی کی نگہبانی فدویوں کے ہاتھ آ جائے اور ریاستی انا کی پاسبانی خواجہ سراؤں کی ذمہ داری ٹھہرے وہاں بیٹیاں اسی طرح جنس ارزاں بن جایا کرتی ہیں ۔ وزیراعظم نے کس طمطراق سے کہا ۔ ”ہم نے قوم کی بیٹی کا مقدمہ لڑنے کے لئے بیس لاکھ ڈالر دیئے “۔ اچھا ہوتا وہ بتا دیتے کہ یہ ڈالر کن فتنہ گر امریکی وکلاء کو دیئے گئے ۔

الزام کیا ہے؟ یہ کہ عافیہ کو جولائی 2008 میں غزنی سے گرفتار کیا گیا ۔ ایک دن لمبے تڑنگے، بھینسا نما چھ امریکی کمانڈو حراست گاہ کے کمرے میں بھاری M-4 رائفلیں اٹھائے کھڑے تھے۔ اچانک پردے کے پیچھے سے عافیہ نکل آئی ۔

اس نے ایک فوجی کو قابو کر کے M-4 رائفل چھین لی ۔ فائر کردیا۔ گولی کسی کو نہیں لگی ۔ ”جوابی فائرنگ“ سے دو گولیاں عافیہ کے جسم میں اتر گئیں ۔ طبی امداد کے بعد اسے جان کنی کے اسی عالم میں امریکا پہنچادیا گیا ۔ یاد رہے کہ برطانوی خاتون صحافی ایوان ریڈلی پہلے ہی انکشاف کر چکی تھی کہ عافیہ بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں ہے ۔

مقدمہ چلا ۔ کوئی ایک بھی الزام ثابت نہ ہوا ۔ رائفل پر عافیہ کی انگلیوں کے نشان نہ ملے ۔ گن پاؤڈر کے آثار نہ پائے گئے ۔ چلنے والی گولی کا سراغ نہ ملا ۔ فرش پر دیواروں پر اس کا نشان نہ پایا گیا ۔ لیکن امریکی انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ 86 برس قید ۔!! طاہرہ کو کون بتائے کہ لاوارث بیٹیاں اسی بھاؤ بکتی ہیں۔ شاید اسے معلوم نہ ہو کہ نیلی آنکھوں، شہابی گالوں اور سنہری بالوں والی کتنی ہی افغان بیٹیاں امریکا کے بازاروں کا رزق ہوچکی ہیں ۔

میں ماننے کے لئے تیار نہیں کہ مشرف یا موجودہ حکمران پوری سنجیدگی کے ساتھ اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر یہ معاملہ اٹھاتے تو امریکا عافیہ ہمارے حوالے نہ کردیتا ۔

جون 2010 میں چترال کے جنگلوں سے ایک امریکی ، گیری فاکنر اسلحہ سمیت گرفتار ہوا اور اعتراف کیا کہ وہ ”خدا کے حکم پر“ اسامہ کو قتل کرنے یہاں آیا ہے ۔ حکومت میں دم خم ہوتا تو وہ پاکستانی قوانین کے تحت گیری فاکنرپر کڑا مقدمہ بناتی اور پھر امریکیوں سے کہتی۔“ عافیہ دے دو ، گیری فاکنر لے جاؤ “۔ میں نے 20 جون 2010کو اس مضمون کا کالم بھی لکھا تھا لیکن کوئی سننے والا بھی تو ہو ۔ چار دن بعد شاہانہ اعزاز کے ساتھ گیری فاکنرامریکی سفارتخانے پہنچا دیا گیا جہاں سے وہ واپس امریکا پرواز کر گیا ۔

طاہرہ کو کیسے سمجھاؤں کہ جب خزاں کی رت عام ہوجائے اور چمن کی نگہبانی آکاس بیلوں کے رحم وکرم پر ہو تو یہ رنگوں ، خوشبوؤں اور تتلیوں کی مرگ کا موسم ہوتا ہے۔ایسے موسموں میں بیٹیوں ہی کا نہیں ہر اس جنس کا بھاؤ گر جاتا ہے جس کا تعلق غیرت و حمیت سے ہوا اور جس کا رشتہ قومی انا سے جڑتا ہو 

تحریر : عرفان صدیقی   ( روزنامہ جنگ پاکستان )