• صارفین کی تعداد :
  • 2342
  • 8/29/2010
  • تاريخ :

روزہ داروں کا انعام

عید الفطر

خوشی منانا انسان کا طبعی تقاضا اور فطری ضرورتوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔ اللہ پاک نے اسلام دین فطرت پر اتارا ہے ۔ بھلا اس فطری تقاضے کو کیسے نظر انداز کر دیتا ۔ سو اللہ تبارک و تعالی نے کچھ مفید حدود و شرائط کے ساتھ ان ضروروتوں کو پورا کرنے کا خاص اہتمام فرمایا ہے ۔

دین اسلام اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ہم مصنوعی وقار، غیر مطلوب سنجیدگی اور ہر وقت کی اداسی اور مردہ دلی سے کردار کی کشش کو کھو دیں

 سو اسی لیئے ہمارا دین اسلام ہمیں خوش ہونے کے تمام جائز مواقع پر خوشیاں منانے کا پورا پورا حق دیتا ہے ۔اور یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ مسلمان کیسے  ہمیشہ بلند حوصلے ، تازہ جوش و ولولے اور نئی امنگوں اور تمناؤں کے ساتھ خوشیاں منا سکتے ہیں ۔

خوشیاں اگر کسی جائز نام اور حوالوں سے وابستہ ہوں تو اسلام نہ صرف اسے منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے عین دین داری قرار دیتا ہے ۔

انہی خوشیوں میں سے ایک خوشی عید سے بھی وابستہ ہے جسے  منانا مسلمانوں کی دین داری میں شامل ہے ۔ عید الفطر مسلمانوں  کے احساسات سے گندھی ہوئی ہے ۔ یہ دینی تہوار خوشی اور فرحت کو جمع کرنے کا نام ہے ۔

 رب کائنات نے رمضان المبارک میں ہمیں روزہ جیسی عظیم فرضیت کو ادا کرنے کی توفیق بخشی اور رحمت بھی دیا، مغفرت بھی دیا اور جہنم سے آزادی بھی عطا کیا، جیسا کہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد پاک ہے، رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ (بیہقی)

 رب تعالٰی کے اس عظیم انعام و اکرام اور فضل و کرم پر خوشی منانے کیلئے ہمیں عیدالفطر کا دن عطا کیا گیا جس دن ہم مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور شکرانے کے طور پر دو رکعت واجب نماز ادا کرتے ہیں اور اس نماز میں چھ زائد تکبیریں واجب کی گئیں تاکہ فرحت و سرور کا اظہار بھی ہو اور فرمان باری تعالٰی پر عمل بھی ہو۔

 ارشاد باری تعالٰی ہے۔

 و لتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ما ھداکم (پ2، ع7) اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی۔

رب تعالٰی نے اپنے فضل و کرم اور رحمت و بخشش پر ہمیں خوشی منانے کا حکم صادر فرمایا ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا (پ11‌ع11)

فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں۔

سرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ و سلم کی عید مبارک عید کی نماز پہلی ہجری میں واجب ہوئی (فتاوٰی رضویہ جلد سوم) لیکن آپ نے پہلی نماز عیدالفطر 6ھ میں ادا فرمائی۔ (مکاشفۃ القلوب)

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نماز عید ہمیشہ عیدگاہ میں ادا فرمائی صرف ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے مسجد نبوی شریف میں ادا فرمائی، آپ کی عیدگاہ مسجد نبوی شریف سے ہزار گز کے فاصلہ پر ہے، عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، آپ کا ایک عمدہ لباس تھا جو شعائر اسلام کی عزت و شان کے اظہار کیلئے عید و جمعہ کے موقع پر پہنا کرتے تھے، حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عیدگاہ جانے سے قبل چند کھجوریں کھا لیا کرتے تھے، جن کی لاتعداد طاق ہوتی تھی کیونکہ روزہ سے نگاہ کمزور ہوتی ہے تو کھجور کھا لیتے تھے، اس لئے کہ میٹھی چیزیں نگاہوں کو تقویت دیتی ہیں اور طاق کی رعایت سب چیزوں میں فرماتے اس لئے کہ بیشک اللہ اکیلا ہے اور وہ طاق کو پسند فرماتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نماز عیدالفطر میں تاخیر فرماتے اور نماز عیدالاضحٰی کو جلد پڑھتے، غالباً عیدالفطر میں اس تاخیر کی حکمت یہ ہوگی کہ صدقہ فطر بھی ادا کر چکے ہوتے اور کچھ طعام بھی تناول فرما چکے ہوتے اور کوئی اہم معاملہ درپیش نہ ہوتا اس لئے اجتماع کی زیادتی کی خاطر تاخیر فرماتے ہوں گے، بخلاف عیدالاضحٰی کے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ پاک میں عیدگاہ کے اندر منبر نہ تھا، سب سے پہلے مروان بن حکم نے عیدگاہ میں منبر کا رواج ڈالا۔  ایک اور روایت میں ہے کہ منبر کی بنیاد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ پاک میں پڑی۔

اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایک راہ سے عیدگاہ تشریف لے جاتے اور دوسری راہ سے واپس آتے، علماء نے اس تبدیلی راہ کی بہت ساری وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

تحریر : ڈاکٹر نگہت نسیم ( عالمی اخبار )


متعلقہ تحریریں:

عید فطر، نیک اعمال کی جزا کا دن

عید سعید فطر