• صارفین کی تعداد :
  • 4181
  • 8/11/2010
  • تاريخ :

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت؟!

مسلمان خاتون

اہل مغرب صرف ايک خصوصيت کے حامل ہيں کہ اگر خود اُس کے مقام پر اُس کے بارے ميں قدرے تآمل اورغوروفکر کيا جائے تومعلوم ہوگا کہ اُن کي يہ خصوصيت مثبت نہيں ہے ۔ ليکن مغربي معاشرے ميں کئي مقامات پر اس خصوصيت وعادت کو بہت زوروشور سے بيان کيا جاتا ہے کہ گويا وہاں ظلم کا سرے سے وجود ہي نہيں ہے۔ وہ عادت و خصوصيت يہ ہے کہ اہل مغرب مرد و عورت کے آپس ميں رويے ، سلوک اوربرتاو کو عورت سے عورت يا مرد سے مرد کے برتاو کے مثل قرار ديتے ہيں يعني وہ ان دو جنس (مرد و عورت) ميں کسي بھي فرق کے قائل نہيں ہيں۔ کوچہ و بازار ہو يا گھر کي چار ديواري ،وہ دوستي ورفاقت اور معاشرت ميں اسي رفتار کے حامل ہيں۔ ظاہر ميں يہ عادت وسلوک بہت دلچسپ اورجالب نظرآتا ہے ليکن جب آپ اس کي حقيقت تک پہنچتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ يہ امر غلط اور منفي ہے اوراسلام اس کي ہرگز تاکيد نہيں کرتا ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کے درميان ايک حجاب اور فاصلہ رکھا ہے کہ يہ دونوں اپني معاشرتي زندگي ميں اس حجاب اور حدود کي رعايت کريں۔

بنابرايں ہم جس ظلم وستم کي بات کررہے ہيں وہ صرف ايراني معاشرے يا گزشتہ دور سے ہي مخصوص نہيں ہے بلکہ تاريخ کے مختلف زمانوں سے ليکر آج تک ايران سميت دنيا کے مختلف ممالک ميں اس کا وجود رہا ہے ۔ آج بھي يہ ظلم پوري دنيا ميں موجود ہے، اسي طرح مغربي ممالک خصوصاً امريکہ اور بعض يورپي ممالک ميں خواتين کو اذيت و آزارپہنچانے کے واقعات، اُن سے ظالمانہ سلوک و طرز عمل ، شکنجے اورمصيبتيں دوسري ممالک کي نسبت بہت زيادہ ہيں۔ اس کے اعداد وشمار بہت زيادہ ہيں، البتہ ميں نے خود ان اعداد و شمار کو مغربي اور امريکي مطبوعات ميں ديکھا ہے نہ يہ کہ ہم اِس کو کسي کي زباني نقل کررہے ہيں۔ يہ تو وہ چيز ہے کہ جسے انہوں نے خوداپني زبان سے بيان کيا ہے۔ لہٰذا اس ظلم و ظالمانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي ضرورت ہے۔ ١

حوالہ جات:

١. نومبر ١٩٩٦ء  ميں ثقافتي کميٹي کے اراکين سے خطاب

 

کتاب کا نام    عورت ، گوہر ہستي  
تحریر   حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ  
ترجمہ    سيد صادق رضا تقوي  

 


متعلقہ تحریریں:

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

شوہر داري يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال