• صارفین کی تعداد :
  • 2860
  • 8/8/2010
  • تاريخ :

آئیے!  63 برس کے سود و زیاں کا حساب لگائیں

پاکستان

 آج 14/اگست ہے، وطن عزیز کا  64 واں یوم آزادی ، ہر طرف لہراتے ہوئے سبز ہلالی پرچم، فضاؤں میں گونجتے قومی نغمے، چہروں پر نظر آنے والی خوشیاں، رنگا رنگ تقریبات، یہ سب اسی مسعود تاریخ کی برکتیں ہیں۔ آج کے دن نہ صوبائی عصبیت کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں، نہ فرقہ واریت کی زہر ناکیاں۔ وطن کی محبت کا جذبہ تمام فروعات پر غالب آ کر یہ ثابت کر رہا ہے کہ اختلافات اور شکایات کے ہوتے ہوئے بھی ہم  ایک ہیں۔ اور اپنے مسائل افہام و تفہیم سے حل کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ہمیں بہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آزادی کے  63 برس گزرنے کے باوجود ہم انفرا اسٹرکچر، تعلیم و صحت، روزگار اور بنیادی سہولتوں میں ان منزلوں سے پیچھے ہیں جہاں ہمارے پڑوسی ممالک نظر آ رہے ہیں۔ مگر ہم نے کچھوے کی چال چلنے کے باوجود ایٹمی قوت سمیت بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم میں یہ احساس زیاں موجود ہے کہ اس نے اپنے وقت کو درست طور پر استعمال نہیں کیا، اپنے وسائل بروئے کار لانے میں تساہل سے کام لیا، اپنی غلطیوں کی بروقت اصلاح نہیں کی۔ اسی احساس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور فروگزاشتوں کے ازالے پر توجہ دیں، مسائل کا ادراک کریں، چیلنجوں کی شدت کو محسوس کریں اور وفاق کی تمام اکائیوں کو ہی نہیں، وطن عزیز کے ہر ہر فرد کو ساتھ لے کر اصلاح احوال کی طرف قدم بڑھائیں۔اس وقت مرکز اور صوبوں میں آئینی طور پر منتخب ڈھانچہ کام کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں فعال ہیں۔ میڈیا آزاد ہے۔ عدلیہ ایک بڑے امتحان سے گزر کر اپنی تنظیم نو میں مصروف ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے غلطیوں کی تلافی پر توجہ دینی چاہئے۔ بلوچستان میں اگر بے چینی نظر آ رہی ہے یا خان آف قلات آزاد کونسل بنا کر معاملات بین الاقوامی سطح پر لے جانے کے اعلانات کر رہے ہیں تو اسے صرف غیرملکی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے بری نہیں ہوا جا سکتا۔

یوم آزادی پاکستان

بیرونی سازشوں کو بھی اسی وقت پنپنے کا موقع ملتا ہے جب اندرونی طور پر بے اطمینانی کی کیفیت موجود ہو۔ ایک گھر میں رہنے والا کوئی بھائی جب علیحدگی کی بات کرتا ہے تو اس کا حقیقی منشا دوسرے بھائیوں سے جدا ہونا نہیں، اپنی شکایتوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ ہمیں وہ وعدے پورے کرنے ہوں گے جو ہمارے رہنماؤں نے بلوچستان کے وطن عزیز سے الحاق کے وقت وہاں کی قیادت سے کئے تھے۔ اس محرومی و پسماندگی کو دور کرنے کی سعی کرنی ہوگی جس کا سامنا چھ عشروں سے صوبے کے لوگ کررہے ہیں۔ ان خدشات کو دور کرنا ہوگا جو نئے منصوبوں اور باہر سے آنے والے لوگوں کے حوالے سے جنم لے رہے ہیں۔ اسی طرح فاٹا، سوات اور ترقی سے محروم دوسرے علاقوں کے مسائل پر پوری دل سوزی سے توجہ دینی ہوگی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربی ہمسایہ ملک افغانستان میں غیرملکی افواج کی آمد سے اٹھنے والے شعلے ہماری سرزمین پر بھی تباہی و بربادی کا سبب بنے ہیں لیکن اگر صوبہ خیبرپختونخوا کی پہاڑی بستیوں سمیت پسماندہ رہ جانے والے علاقوں میں لوگوں کو انفرا اسٹرکچر، روزگار، تعلیم و صحت اور زندگی کی دوسری بنیادی سہولتیں مہیا کرنے میں غفلت نہ برتی جاتی تو وہ انتہا پسندی جنم نہ لیتی جو خودکش حملوں جیسے رجحانات کا باعث بنی۔ نہ ہی ان عناصر کو اپنے قدم جمانے کا موقع ملتا جنہوں نے غیرملکی سرمائے، جدید ہتھیاروں اور اعلٰی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے مقامی لوگوں کو یرغمال بنا کر دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا اور مختلف علاقوں میں ریاستی عملداری کو چیلنج کیا۔ جو ملک اسلام کے عادلانہ نظام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے قائم کیا گیا تھا، اس میں اقتدار اور وسائل چند خاندانوں تک محدود کرکے معاشی خلیج روز بروز وسیع کرنے کی بجائے مساوات پر زور دیا جاتا، معیاری تعلیم غریبوں کے لئے شجر ممنوعہ نہ بنائی جاتی، علاج معالجے کی سہولتیں عام کی جاتیں، میرٹ کو ہر شعبے میں ترقی کا معیار بنایا جاتا، عام آدمی کی انصاف تک رسائی ممکن ہوتی تو احساس محرومی سرحد اور بلوچستان کے مخصوص علاقوں سے آگے بڑھ کر سندھ اور پنجاب کے بعض حصوں تک پھیلتا نظر نہ آتا۔ ہماری قیادت قومی ذمہ داریوں اور حمیت سے غافل نہ ہوتی تو پڑوسی ملک کو آبی جارحیت سمیت معاندانہ اقدامات کی ہمت ہوتی نہ کرہ ارض کی بالکل دوسری سمت کے لوگ ہمیں ہدایات دینے کے لئے یہاں آتے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز اندرونی و بیرونی خطرات، قرضوں کے نام پر جکڑی جانے والی زنجیروں، کرپشن کی دلدلوں، مرکز اور صوبوں کے تعلقات کی پیچیدگیوں اور سیاست کے استحصالی رنگ اختیار کرنے سے پیدا ہونے والی الجھنوں میں گھرا نظر آ رہا ہے۔ مگر جو قوم انتہائی نامساعد حالات میں اپنی آزادی حاصل کرنے، اسے برقرار رکھنے اور ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب رہی وہ اپنے ان مسائل کو بھی یقیناً حل کرلے گی۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور مختلف طبقات ذاتی و گروہی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مسائل حل کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں، قوم کو ترقی و خود کفالت کی راہ پر گامزن کریں اور ملک کو صحیح معنوں میں فلاحی اسلامی مملکت بنانے کے لئے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیں۔

نہیں اقبال ناامید اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

بشکریہ  روزنامہ جنگ پاکستان