• صارفین کی تعداد :
  • 3068
  • 7/2/2010
  • تاريخ :

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی تعلیمی و تمدنی حالت

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی تعلیمی و تمدنی حالت

عہد جاہلیت کے عرب ناخواندہ اور علم کی روشنی سے قطعی بے بہرہ تھے۔ ان کے اس جہل و ناخواندگی کے باعث توہمات و خرافات نے پورے معاشرے پر اپنا سایہ پھیلا رکھا تھا۔ ان کی کثیر آبادی میں گنتی کے لوگ ہی ایسے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔

دورِ جاہلیت میں عرب تمدن کے نمایاں ترین مظہر حسب و نسب کی پہچان، شعر گوئی اور تقاریر میں خوش بیانی جیسے اوصاف تھے۔ چنانچہ عیش و عشرت کی محفل ہو خواہ میدان کارزار وہ جہاں بھی جاتے اس میں شعر گوئی یا جادو بیان تقاریر کے ذریعے اپنے قبیلے کی قابل افتخار باتیں ضرور بیان کرتے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ اسلام سے قبل عربوں میں شجاعت، شیریں بیانی، مہمان نوازی لوگوں کی مدد کرنا اور حریت پسندی جیسی عمدہ خصوصیات و صفات بھی موجود تھیں مگر ان قابل مذمت عادت و اطوار کے مقابل جو ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکی تھیں، ان کی یہ تمام خوبیاں بے حقیقت بن کر رہ گئی تھیں، اس کے علاوہ ان تمام خوبیوں اور ذاتی اوصاف کے محرک انسانی اقدار اور قابل تحسین و ستائش باتیں نہ تھیں۔

زمانہٴ جاہلیت کے عرب طمع پروری اور مادی چیزوں پر فریفتگی کا کامل نمونہ تھے۔ وہ ہر چیز کو مادی مفاد کے زاویئے سے دیکھتے تھے۔ ان کی اجتماعی تہذیب بے راہ روی، بدکرداری اور قتل و غارتگری جیسے برے افعال پر مبنی تھی اور یہی حیوانی پست صفات ان کی سرشت اور عادت و جبلت کا جز بن گئے تھے۔

دورِ جاہلیت میں عربوں کے درمیان جو تمدن رائج تھا اس میں اخلاق کی توجیہ و تعبیر دوسرے انداز میں کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر غیرت، مروت، شجاعت کی سب ہی تعریف کرتے تھے مگر شجاعت سے ان کی مراد سفاکی اور دوسروں کا قتل و خون کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت ہوتی تھی۔ غیرت کا مفہوم ان کے تمدن میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا تھا، اور اپنے اس طریقہٴ کار سے اپنی غیرت کی نمایاں ترین مثال پیش کرتے تھے۔ عہد وفا وہ اسی بات کو سمجھتے تھے کہ ان کے قبیلے کے فرد نے جو بھی عہد و پیمان کیا ہے وہ چاہے غلط ہو یا صحیح وہ اس کی حمایت و پاسداری کریں۔ 

عنوان : تاریخ اسلام

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان

بشکریہ پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی


متعلقہ تحریریں :

تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت

تاریخ اسلام