• صارفین کی تعداد :
  • 3274
  • 6/17/2010
  • تاريخ :

ہر اختلاف انگیز صدا شیطان کی صدا ہے (حصّہ دوّم)

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ‏ای

س: ہفتۂ وحدت کی آمد آمد ہے اور آپ کی رائے کے مطابق اسلامی مذاہب ـ بالخصوص شیعہ اور سنی مذاہب ـ کے درمیان اختلاف پھیلانے سے استعمار کے کیا کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟

ج: میں استعمار کے اہداف کی بہتر تشریح کے لئے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہوں جس کو بہت سے دیگر افراد قابل توجہ نہیں سمجھتے۔

مثلاً اگر تمام عرب مسلمان ـ جن کی آبادی آٹھ سے نو کروڑ کے قریب ہے ـ اور ایران کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ مسلمان مشرق وسطی کے اہم ترین اور حساس ترین خطے میں ـ، جو دنیا کے مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا واحد راستہ بھی ہے،  12 کروڑ مسلمان انڈونیشیا میں اور کئی ملین مسلمان ملائشیا میں اور دسیوں کروڑ مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت میں اور شمالی افریقہ کے کئی بڑے اور چھوٹے ممالک میں کئی ملین مسلمان ـ جو ایک وسیع علاقے میں رہتے ہیں جو بحیرہ روم (بحیرہ متوسط = Mediterranean Sea) سے لے کر بحرالکاہل کے کناروں اور بحر ہند کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے ـ مل کر آواز اٹھائیں اور کلمۂ واحدہ "لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ص)" کا حقیقی معنوں میں نعرہ لگائیں اور یہ سارے مسلمان اسلام کے دشمنوں اور قرآن کے مخالفین اور مسلمانوں کے مخالفین کے خلاف قیام کریں آپ خود دیکھیں گے کہ دنیا میں بڑی طاقتوں کی حالت کیا سے کیا ہوجاتی ہے۔

آج یہی علاقہ ـ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ـ استعمار کے زیر اثر ہے۔ اس علاقے میں متعدد ممالک ہیں اور ہر ایک کسی نہ کسی سیاسی بلاک سے وابستہ ہے یا کسی بلاک کا رکن ہیں یا اس بلاک کے مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ بعض ممالک حصول مفادات کا ذریعہ ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ ہم ممالک کی توہین نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو مکمل طور پر وابستہ بھی نہیں ہیں؛ ہر ملک کے اپنے خاص رجحانات ہیں؛ یعنی مملکت ایران کے سوا ـ جو مغرب اور مشرق سے سو فیصد مستقل موقف رکھتا ہے ـ ان میں سے بعض ممالک میں وابستگی کی مختلف قسمیں یا اکثر ممالک میں، پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ ممالک ‏«لا آلہ الا اللہ» و «محمد رسول اللہ» کے گرد متحد ہوجائیں اور فیصلہ کریں کہ اسلام کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی بھی فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت کے خلاف استقامت کریں گے تو تب آپ دیکھیں گے کہ تیل کے بازاروں کی کیا صورت ہوتی ہے، ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کی صورت حال کیا سے کیا ہوجاتی ہے؟ اور دیگر مصنوعات کی مختلف عظیم کمپنیاں اور کارخانی کس صورت حال سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

یعنی مغربی دنیا، سرمایہ داری کی دنیا اور صنعتی دنیا یکبارگی سے مفلوج ہوجائے گی۔ اگر [بشرطیکہ] دنیا کا یہ بڑا حصہ مقابلے کے لئے اٹھے۔

آج آپ جانتے ہیں کہ خلیج فارس ایک بہت بڑا علاقہ ہے اور دنیا کا حساس ترین علاقہ، تیل کے لحاظ سے خلیج فارس ہے۔ تیل کے عظیم ترین ذخائر خلیج فارس کے کنارے یا خلیج فارس کے اندر واقع ہیں۔ یہی لوگ جو خلیج فارس کے کناری رہتے ہیں ـ خواہ وہ جو تیل کے ذخائر کے مالک ہیں خواہ وہ جن کے پاس تیل کے ذخائر نہیں ہیں ـ اگر دشمنان اسلام کے خلاف قیام کا فیصلہ کریں اور انہیں تیل نہ بیچیں، تو کیا ہوگا؟ اچھا تو اسلام کے دشمن اس دنیا میں، کون ہیں؟ وہی جو تیل کے سب سے بڑے بیوپاری ہیں اور تیل خریدنے کے لحاظ سے بڑے ممالک سمجھے جاتے ہیں، اب اگر ان کو تیل کی ترسیل بند ہوجائے تو ان کی تمام کمپنیاں بند ہوکر رہ جائیں گی، ان سب کے گھر ٹھنڈک کا شکار ہوجائیں گے؛ ان کی زندگی کی فضا یخزدہ اور منجمد ہوجائے گی۔ یہ سب تیل کو ایک حیاتی وسیلے کے عنوان سے استعمال کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد کس حد تک ان طاقتوں کے لئے نقصان دہ ہوگا؟ جب یہ حقیقت روشن ہوگی تو بخوبی معلوم ہوگا کہ دشمن مسلمانوں کے اندر نفاق و اختلاف کیوں پھیلارہا ہے؟

مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بالکل اس مقصد کے لئے ہے کہ عالمی مسلط طاقتوں کو معلوم ہے کہ دنیا کے یہ ستر اسی کروڑ مسلمان اگر متحد ہوجائیں تو یہ ایک بہت بڑی طاقت کو تشکیل دیں گے ـ معاشی، سیاسی اور فوجی لحاظ سے ـ اور کسی بھی تسلط پسند طاقت اس عظیم طاقت کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ بہت ہی فطری سے بات ہے کہ دشمنان اسلام اس امت واحدہ کے درمیان تفرقہ ڈالیں۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنی کے لئے طاقتوں کا اصل محرک یہی ہے۔

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی ( آبنا ڈآٹ آئی آر )


متعلقہ تحریریں:

مھناز رؤفی کا انٹرویو