• صارفین کی تعداد :
  • 1292
  • 5/31/2010
  • تاريخ :

کیا یہ حبّ رسول ہے؟

سوالیہ نشان

میں رات بھر بے کل رہا۔ اور کیکر کے تیز نوکیلے کانٹے کی طرح پیہم میرے دل میں کچوکے لگانے والی بے کلی کا سبب ایک چھوٹا سا سوال تھا۔ ”کیا اس خبر سے میرے حضور، خاتم الانبیاء، رحمت دو جہاں کی روح پاک کو آسودگی حاصل ہوئی ہوگی؟“ وہ جنہوں نے گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیں، وہ جنہوں نے خون کے پیاسوں کو قبائیں عطا کیں، وہ جنہوں نے ستم ڈھانے والوں کو بیت اللہ کی چابیاں بخش دیں، وہ جنہوں نے اپنی راہ میں کانٹے بچھانے اور سر مبارک پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں کے لئے بھی دست دعا بلند فرمائے، وہ جن کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ ”آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے“۔ جب ہوا کے کسی لطیف جھونکے نے روضہ رسول کی سبز جالیوں سے پرے نئی کریم کو یہ خبر دی ہوگی تو آپ کی روح پاک بے کل نہ ہوئی ہوگی؟

لاہور میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کون تھے؟ ان کا مذہب، عقیدہ اور مسلک کیا تھا؟ یہ سوالات غیر متعلقہ ہیں۔ وہ انسان تھے اور ہمارے دین کا درس ہے کہ ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“۔ ہمارے نبی پاک کا فرمان ہے کہ ”جس نے کسی ذمی (اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہری) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کے فاصلے سے آتی ہوگی“۔ کیا اس نبی کریم کا کلمہ پڑھنے اور ان سے محبت و عقیدت کا دعویٰ کرنے والا کوئی شخص نبی کے اس فرمان کی خلاف ورزی کا تصور بھی کرسکتا ہے؟

مجھے آج پھر طائف یاد آرہا ہے۔ وہ چھوٹا سا ویرانہ میری آنکھوں کے سامنے ہے جہاں کبھی انگوروں کا باغ تھا۔ میری نظریں سیاہ رنگ پتھروں سے اٹے پہاڑ کے دامن میں ایک قدیم شکستہ سی مسجد پہ جمی ہیں۔ کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں طائف کے اوباشوں کے پتھروں سے زخم خوردہ نبی نے کچھ دیر آرام کیا تھا۔ زید بن حارثہ آپ کو سہارا دئیے ہوئے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اللہ تعالٰی کے جلال نے انگڑائی لی۔ جبریل پیغام لے کے آئے کہ پہاڑوں کا نگران فرشتہ تیار کھڑا ہے۔ آپ حکم فرمائیے کہ اس بستی کو اپنے نابکار مکینوں سمیت دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر سرمہ کردیا جائے۔ میرے حضور نے دکھ، درد اور اذیت کی اس کیفیت میں بھی فرمایا۔ ”نہیں! ممکن ہے ان کی اولاد ایمان لے آئے“۔ مجھے مکہ کی فتح کا دن یاد آیا۔ وہ کون سا ستم ہے جو اہل قریش نے روا نہ رکھا تھا۔ لیکن سپاہ فتح مند شہر کی دہلیز پہ قدم رکھتی ہے تو میرسپاہ نے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کانپتے دشمنوں سے کہا۔ ”آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو“۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور پہ بہتان باندھے۔ آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ کے صحابہ کو صحرا کی دہکتی ریت پہ لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دئیے، ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک دیں، تین برس تک شعب ابی طالب کے سنگلاخ پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا، آپ کو ہجرت پہ مجبور کردیا، آپ کو مدینہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا۔ لیکن وہی لوگ سرنگوں ہوئے تو رحمت کی ایک گھٹا مکہ پہ چھا گئی۔ بہت سے صحابہ کرام  کی بے نیام تلواریں دشمنان اسلام کا لہو پینے کے لئے مچل رہی تھیں۔ حضرت سعد بن عبادہ  نے حضور سے کہا۔ ”رسول اللہ! آج تو انتقام، جنگ و جدال اور خون خرابے کا دن ہے آج کعبے کو حلال کیا جائے گا“۔ نبی کریم نے فرمایا۔ ”نہیں سعد۔ تم نے غلط کہا۔ آج تو وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ جب کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ آج تو رحمت اور امن کی برکھا کا دن ہے“۔

ہبار، کو حضور کے سامنے لایا گیا۔ حضور کی صاحبزادی حضرت زینب (س) مکہ سے مدینہ جارہی تھی کہ ہبار نے ان پر شدید سنگ زنی کی۔ آپ حاملہ تھیں۔ چوٹیں اتنی شدید تھیں کہ حضرت زینب مدینہ پہنچ کر انتقال کر گئیں۔ اپنی پیاری بیٹی کی یاد سے حضور کی آنکھیں بھر آئیں۔ نگاہ اٹھا کر ہبار کی طرف دیکھا اور فرمایا۔ ”میں نے معاف کردیا۔ اسے چھوڑ دو“۔ وحشی کو آپکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس شخص نے جنگ احد میں حضور کے چچا حضرت حمزہ  کا گلا کاٹا تھا۔ حضور اکثر اپنے چچا کے قتل اور وحشی کی وحشت کا ذکر کیا کرتے۔ آج وہ وحشی آپ کے سامنے کھڑا تھا اور اس پر لرزہ طاری تھا۔ آپ نے اسکی جان بھی بخش دی عظیم چچا کی یاد آئی تو اتنا فرمابا ”اسے مجھ سے دور لے جاؤ“۔ حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کرکے آپ کا کلیجہ چبانے والی درندہ صفت عورت، ہند کو پیش کیا گیا۔ خوف اور ندامت کے باعث اس نے اپنا منہ نقاب سے چھپا لیا۔ آپ نے فرمایا۔ ”جاؤ تمہیں معاف کردیا“۔

میں رات بھر بے کل رہا۔ اس وقت بھی ایک چھوٹے سے سوال کی چبھن سے ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ کیا لاہور میں اسی سے زائد انسانوں کی ہلاکت کی خبر سبز جالیوں والی خلوت گاہ کے مکین کے لئے آسودگی کا باعث بنی ہوگی؟ یہ کون تھے جنہوں نے خون کی ہولی کھیلی؟ وہ جو کوئی بھی تھے خاتم النبیین کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات کریم سے بے گانہ تھے۔ آپ نے تو جانوروں تک کو اذیت دینے سے منع فرمایا ہے۔ جنگ کے دوران بھی بلاوجہ درخت کاٹنے اور کھیت اجاڑنے سے روکا ہے۔ آپ نے تو میثاق مدینہ کے ذریعے غیرمسلموں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے آداب بتائے ہیں۔ آپ نے تو خطبہ حجتہ الوداع میں انسانی تہذیب و معاشرت کا پہلا جامع منشور عطا کیا ہے۔ آپ کا کوئی نام لیوا ایسی خونخواری کا تصور بھی کیوں کر کرسکتا ہے؟

اللہ کا فرمان ہے۔ ”دین میں کوئی جبر نہیں“۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے۔ ”اگر آپ کا رب چاہتا تو جو لوگ زمین میں ہیں، سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو پھر کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے حتٰی کہ وہ مومن ہوجائیں“۔ کس قدر واضح بات ہے کہ اگر ہر شے پہ قدرت رکھنے والے قادر مطلق نے بھی دین مذہب کے معاملے میں اپنی قدرت اور قوت کو استعمال نہیں کیا اور یہ تلقین بھی فرمائی کہ کسی کو جبر و اکراہ کے ذریعے مسلمان یا مومن نہیں بنایا جاسکتا تو پھر ہم میں سے کسی کو یہ حق کیسے حاصل ہوگیا کہ وہ بزور دوسروں پہ اسلام نافذ کرنے لگے اور کسی دوسرے مذہب و مسلک کی پیروی کے جرم میں ان کا خون بہاتا پھرے۔ قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ ”مشرکین اللہ کو چھوڑ کر جن جھوٹے خداؤں کو پکارتے ہیں تم انہیں بھی برا نہ کہو“۔ سورہ الکافرون میں کیا اصول طے کردیا گیا۔ ”تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین“۔

مذہب، مسلک، عقیدے اور نظریے سے قطع نظر، کسی انسان کے قتل کی اتنی سخت وعید کے باوجود یہ کون ہیں جو جیتے جاگتے انسانوں پر بارود برساتے اور انہیں گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں؟ کیا یہ بھول چکے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے حضور پیش ہونا اور اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے؟ کیا انہیں نبی رحمت کا یہ فرمان بھی یاد نہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون کے مقدمے پیش ہوں گے اور رب کائنات فیصلے صادر کرے گا۔

اللہ انہیں ہدایت دے جو ایسی خونخواری کو حب رسول اور عشق نبی کی کوئی ادا سمجھتے ہیں۔ ایسی فتنہ گری کی تخم ریزی کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ جب ہوا کے کسی لطیف جھونکے نے سبز جالیوں سے پرے حجرہ نور کے مکین کو یہ خبر دی ہوگی تو ان پر کیا گزری ہوگی؟

تحریر : عرفان صدیقی  ( روزنامہ جنگ )