• صارفین کی تعداد :
  • 942
  • 5/23/2010
  • تاريخ :

فیس بک کے کچھ حقائق

فیس بک

 آج کی دنیا میں انٹرنیٹ سے سروکار رکھنے والے تقریباً تمام مسلم نوجوان مختلف اہداف و مقاصد کی خاطر انٹرنیٹ گروپ تشکیل دیتے ہیں یا کسی گروپ کے ممبر بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں فیس بک کی ممبرشپ عمومی رجحان بن کر رہ گئی ہے اور انٹرنیٹ صارفین نہ صرف خود فیس بک کی ممبرشپ حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنے یاروں، دوستوں اور عزیزوں یا دیگر کو بھی ممبرشپ کی دعوت دیتے ہیں کیوں کہ فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنا، تبادلہ خیال کرنا، دوستی بڑھانا، تبلیغ کرنا، تفریح کرنا وغیرہ بہت آسان ہے تا ہم  کسی نے شاید کم ہی اپنے آپ سے پوچھا ہو کہ فیس بک اتنی ساری سہولیات کیوں فراہم کرتا ہے؟ کیا فیس بک نیٹ ورک صرف اس لئے فراہم کیا گیا ہے کہ دنیا والوں کو خالصتا ایک مواصلاتی ذریعہ بطور مفت یا بعنوان خیرات طور پر فراہم کرنا چاہتا ہے؟ یا یہ کہ اس نیٹ ورک سے بعض لوگ عظیم ترین فوائد اٹھا رہے ہیں اور صارفین صرف اور صرف غفلت کی وجہ سے اپنے تمام راز و رمز ان کے سپرد کردیتے ہیں؟

یہ جذباتی نعروں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ حقائق پر مبنی رپورٹ ہے جو مسلم نوجوانوں ـ خاص طور پر اردو صارفین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے؛ توجہ فرمائیں:

انٹیلی جنس امور کے ایک اسرائیلی ماہر نے کہا ہے کہ "اسرائیل فیس بک اور دیگر سوشل  سماجی نیٹ ورکس کے ذریعے اطلاعات اور معلومات اکٹھی کرتا ہے اور جاسوس بھرتی کرتا ہے!۔

"ایران میں خفیہ جنگ" نامی کتاب کا مؤلف اور صہیونی روزنامے ایدیئوت آہرونات (Yedioth Ahronoth) کے سیاسی و فوجی امور کا تجزیہ نگار "رونن برگمین" (Ronen Bergman) کہتا ہے: انٹرنیٹ میں سماجی نیٹ ورکس کی نگرانی کرنا، کم از کم توقع ہے جو انٹیلی جنس سروسزسے کی جا سکتی ہے؛ اسرائیل ذاتی معلومات و کوائف سے ـ جو انٹرنیٹ میں بوفور پائے جاتے ہیں ـ ایسے افراد کا سراغ لگاتا ہے جو اس ریاست کے لئے ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور اگر آج سے 50 برس بعد شین بیتھ (Shin Beth) کی خفیہ فائلیں کھول دی جائیں تو معلوم ہوگا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز اور اسرائیلی افواج کے انٹیلی جنس شعبے کے زیر استعمال جاسوسی کے وسائل ان حساس آلات سے کہیں زیادہ متنوع اور مختلف النوع ہیں جو جیمز بانڈ کی تخیلاتی فلموں میں نظر آتے ہیں تا ہم یہ نئی روش بہت مفید اور آسان ہے۔

برگمین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ صارفین کی ذاتی معلومات حاصل کرکے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ اگر وہ جاسوسی کی صلاحیت رکھتے ہوں تو اسرائیل کے لئے جاسوسی کریں اور یہ روش بڑی حد تک مؤثر ہے اور کئی لوگ کچھ دنوں میں جاسوسی کے لئے تیار ہوجاتے ہیں گوکہ اسرائیلی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ یہ روش لمبے عرصے کے لئے جاسوس بھرتی کرنے کے لئے زیادہ مؤثر نہیں ہے اور اس روش پر جاسوسی کے لئے آمادہ کئے جانے والے افراد طویل عرصے تک اسرائیل کے لئے کام نہیں کرسکتے!!!۔

شاید برگمین یہ کہنا چاہتا ہو کہ جن افراد کو انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوس کے عنوان سے بھرتی کیا جاتا ہے حقیقی دنیا میں بھی ان کا تعاقب کیا جائے اور انہیں باقاعدہ جاسوس بنایا جائے تا کہ طویل عرصے تک اسرائیل کی خدمت کرسکیں اور عالم اسلام پر صہیونی تسلط کے سلسلے میں اسرائیل کا ہاتھ بٹائیں!

یہ رپورٹ برگمین ہی کے حوالے سے بی بی سے نے بھی شائع کی تھی اور بی بی سے نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ اسرائیل فیس بک کے ذریعے جاسوس اور مخبر بھرتی کرتا ہے۔

بی بی سی نے غزہ اور فلسطین میں فیس بک کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ عرصے سے مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر اسرائیل کے لئے ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک اسرائیل کے لئے جاسوسی کررہا تھا جبکہ قدیم الایام سے اسرائیل کے لئے جاسوسی کرنے والے افراد بہت جلد رسوا ہوکر پکڑے اور مارے جاتے تھے اور حماس کی حکومت بھی جن جاسوسوں کو پکڑتی ہے انہیں فوری طور پر پھانسی دے دیتی ہے۔ چنانچہ برگمین کا کہنا ہے کہ وہ وسائل اور امکانات جو تاریخ کے دوران اسرائیل کی مدد کے لئے بروئے کار لائے جاسکتے تھے اس وقت دستیاب نہیں ہیں [یعنی کوئی فلسطینی جاسوسی کے لئے تیار نہیں ہوتا] چنانچہ اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں نے نئی روش اپنائی ہے اور انٹرنیٹ میں سماجی نیٹ ورکس کو استعمال کررہی ہیں۔

بشکریہ آبنا ڈاٹ آئی آر