حدیث ثقلین کی افادیت (حصّہ دوّم)
خدا کی کتاب اور میری عترت طاھرہ کا امت کے درمیان چھوڑنا ان کی خلافت و جانشینی کے معنیٰ میں ھے اس بنا پر قرآن و عترت رسول، امت مسلمہ کے لئے رسول کے جانشین وخلیفہ ھیں اور ان کا آپس میں ھم آھنگ ہونا اور متضادنہ ہونا رسول کے قائم مقام ہونے پر دلالت کرتا ھے۔ اسی وجہ سے بعض روایات میں ان دونوں کو خلیفہ کے لفظ سے یاد کیا گیا ھے۔
احمد بن خنبل نے اپنی مسند میں زید بن ثابت سے روایت کی ھے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا: در حقیقت میں نے تمھارے درمیان دو خلیفہ رکھ چھوڑا ھے۔ (1)
ابن سعید خدری سے روایت ھے کہ رسول اکرم (ص) (ص) کا ارشاد ھے کہ۔ میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں بطور جانشین چھوڑ رھا ھوں ۔ قرآن اور عترت۔ (2)
یا آپ نے فرمایا: میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزوںکو جانشین اور خلیفہ قرار دیتا ھوں ۔ (3) در حقیقت تمھارے درمیان دو بھت قیمتی امر کو خلیفہ قرار دیتا ھوں ۔ (4)
عترت طاھرہ کو خلیفہ بنانا اور ان کو اپنا مقام دینا اس بات کو متقاضی ھے کہ یہ (عترت رسول) تمام رسالتی کمال و جمال کے حامل ھیں۔
اسی واسطے احادیث میں مفہوم (خلیفہ )عترت کی سیاسی و علمی امامت و مرکزیت پر دلالت کرنا ھے۔ اور رسول وہ کا فرمان جس میں آپ نے بغیر کسی قید و شرط کے ان کی پیروی کا حکم دیا ھے اور ان سے آگے بڑھنے اور ان سے پیچھے رہ جانے کی ممانعت فرمائی ھے اسی افادیت و مرکزیت پر دلالت کرتا ھے۔
مگر افسوس کہ پیغمبر کی اتنی تاکید کے باوجود امت مسلمہ نے اھل بیتعليهم السلام کی پیروی نہ کی اور ان کی حقوق کی مراعات نہ کی اور ان کی امامت وولایت کو قبول نہ کیا اور جس راہ پر خود چاھا چل پڑ ے(جب کہ متعدد مقامات اور مختلف اوقات میں رسول نے ان کی اتباع کا حکم دیا تھا خاص طور سے غدیر خم اور قبض روح کے وقت) اور امت نے ان سے احکام وآداب وسنن دینی حاصل نہ کئے اور معارف وعلوم دینی کے لئے ان کی جانب رجوع نہ کیا یھاں تک کہ مجبور ہو کر قیاس۔ (5)
ابو یوسف نے اس سوال کو دوبارہ مضحکہ خیز انداز میں دھرایا اور جواب کا منتظر رھا اور کھا کہ خیمہ اور کجاوہ میں کیا فرق ھے ؟ آپ نے فرمایا: ابو یوسف تم جس طرح سے اپنی فکر و نظر کے بل بوتے پر قیاس کر رھے ہو ایسا نھیں ھے تم دین سے کھیل رھے ہو،ھم وھی کچھ انجام دے رھے ھیں جو رسول اکرم(ص) نے انجا م دیا۔ اور جو کچھ فرمایا اس کو کہہ رھے ھیں۔ پیغمبر جس قوت کجاوے میں سوار ہوتے تھے۔(احرام کی حالت میں)سایہ میں نھیں جاتے تھے۔ لیکن خیمہ، گھر،دیوار ان کے سائے میں جاتے تھے۔ (معارف ومعاریف جلد ۴ صفحہ۱۸۰۷)
استحسان (6) کی جانب چلے گئے اس لئے کہ ان کے پاس مکمل سنت کا وجود نھیں تھا۔
اس لئے عمر بن خطاب کی ممانعت کے سبب دوسری صدی ھجری تک احادیث نبوی(7) کو نھیں لکھا گیا۔ (8)
عمر بن عبد العزیز نے جب یہ دیکھا کہ آثار حدیث نبی اکرم(ص) ختم ہو رھے ھیں تو اس نے جمع حدیث کی ممانعت کا حکم ختم کردیا اور اس زمانے کے بعد سے علماء اھل سنت میں سے،مالک،احمد بن حنبل، بخاری،جیسے افراد نے جو آثار نبوی رہ گئے تھے ان کو قلمبند کر نا شروع کر دیا۔
باوجود یکہ بھت سارے آثار رسول اکرم (ص) فراموشی کی نذر ہو گئے تھے یا ان کے حفظ کرنے والے مر گئے تھے۔ یھاں تک کہ کچھ محققین کا کھنا ھے کہ اھل سنت کے پاس احکام کی پانچ سو روایات سے زیادہ نھیں ھیں۔
بھر حال دوسری صدی ھجری تک سنت رسول اکرم (ص) اھل سنت کے نزدیک نہ ھی جمع ہوئی تھی اور نہ ھی پہچانی جاتی تھی۔ جب کہ آپ کی مکمل سنت مطھرہ عترت طاھرہ کے پاس محفوظ تھی۔
پھر آخر کیا وجہ تھی کہ علوم آل محمد سے منھ پھیر لیا گیا درآن حالیکہ یہ اھل بیت عليهم السلام سنت نبی اکرم (ص) کو جیسے چاھیے ویسے نقل کر رھے تھے۔
محقق یکتا روزگار آقای بروجردی فرماتے ھیں۔ ائمہ اھل بیت عليهم السلام کے پاس بھت ساری روایات موجود ھیں اور ان بزرگان کے پاس رسول اکرم (ص) کی زبانی بیان کردہ اور امیر الموٴمنین عليه السلام کی تحریر کردہ ایک کتاب ھے جس میں تمام سنت نبی اکرم(ص) جس کو خدانے ان کو پھنچا نے کا حکم دیا تھا محفوظ ھیں۔
پھر آقای بروجری نے اس طرح کی کچھ احادیث کی وضاحت کی اور فرماتے ھیں۔ (9)
الف۔ رسول خدا(ص) نے اپنی رحلت کے بعد امت مسلمہ کو یوں ھی آزاد نھیں چھوڑ دیا ھے بغیر کسی ھدایت کرنے والے اور واضح ھدایت کے ان کوتنھا نھیں رھنےء دیا ھے۔
بلکہ ھدایت کرنے والے رھبر حق کی جانب دعوت دینے والے آقا مولا، رھبر، حامی (دین) اور محافظ (اسلام) کو معین فرمایا ھے۔
معارف الٰھی، واجباب دینی، سنت آداب (دینی) حلال و حرام، حکمت، احادیث، اور وہ تمام چیزیں جس کی امت مسلمہ کو قیامت تک ضرورت تھی حتی کہ زخم کے نشان کی دیت تک کا حکم بیان فرمایا ھے۔
پیغمبر نے کسی بھی فرد کو اس بات کی قطعی اجازت نھیں دی ھے کہ اپنی رائے یا نظریاتِ قیاس کے ذریعہ کوئی فتویٰ دے۔ کیونکہ کوئی بھی موضوع کوئی بھی چیز حکم سے خالی نھیں ھے۔
وہ حکم جو کہ خدا وند منان کی جانب سے پیغمبر اسلام کے لئے آیا ھے اور رسول اکرم (ص) نے یہ تمام قوانین خود حضرت علی عليه السلام کو تحریر کروائے ھیں۔
پیغمبر نے اس کے تحریر کرنے اور اس کی حفاظت کرنے اور اس کو فرزندان علی (ع) ابن ابی طالب تک جو کہ امامان امت ھیں پہچانے کا حکم دیا ھے۔
موملائے کائنات نے اس کو اپنے ھاتھوں تحریر فرمایا اور اس کو (اپنے بعد والے ائمہ) تک پھنچایا۔
ب۔ دوسرا فائدہ جو اس حدیث سے حاصل ہوتا ھے وہ یہ ھے کہ رسول خدا(ص) نے ان علوم کو صرف علی عليه السلام کے تحریر کروایا ھے حیات پیغمبر میں حضرت علی عليه السلام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس سے باخبر نھیں تھا اور رسول نے علی عليه السلام سے اس بات کی خواھش کی کہ یہ ان گیارہ فرزندوں تک جو کہ امام امت ھیں، منتقل ہو جائے۔
لھٰذا اب امت مسلمہ پر واجب ھے کہ حلال و حرام اور وہ علم جو کہ ان کے دین کی ضرورت ھے امیر المومنین (ع) عليه السلام اور ان کے گیارہ فرزندوں سے حاصل کریں جواھل بیت رسول ھیں۔ حقیقت یہ ھے کہ یہ افراد اسرار اوسنت پیغمبر سے باخبر ھیں خزانئہ علم اور رسول کے دین مبین کے حامی ھیں۔
ج۔ وہ کتاب جو پیغمبر کی زبان مبارک سے سن کر امیر المومنین (ع) عليه السلام نے تحریر فرمائی ھے اماموں کے پاس رھی ھے اور اسے امام محمد باقر عليه السلام اور امام جعفر صادق عليه السلام نے کچھ اصحاب اور گروھوں کو دکھایا بھی ھے تاکہ لوگوں کو اطمینان ہو اور اس طرح سے اتمام حجت ہوسکے۔
محقق عظیم آقای برو جروی فرماتے ھیں۔لھٰذا ان سے احادیث لینا اور انھیں سیکھنا ضروری ھے کیونکہ یہ ان احادیث سے زیادہ اطمینان بخش ھیں جو دوسرے افراد کے پاس ھیں۔ (10)
حوالہ جات:
1- اِنی تارک فیکم خلیفتین۔ مسند احمد بن خنبل جلد ۵ صفحہ ۱۸۲۔ ۱۸۹ ینابیع المودة صفحہ ۳۸
2- ایھاالناس اِنی ترکت فیکم الثقلین خلیفتین۔ نفحاالازھار جلد ۱ صفحہ ۴۵۹ از تفسیر انوری (مخلوط)
3- اِنی مخلف فیکم الثقلین سمطة النجوم۔ العوالی، جلد ۲ صفحہ۵۰، نفحات الازھار جلد ۲ صفحہ ۱۰۹
4- قد خلفت فیکم الثقلین۔ پنابیع المودة صفحہ ۳۹
5- قیاس سے مراد۔قیاس مستنبط العلة یعنی جب مقید آیات واحادیث میں کسی قسم کی علت نہ پائے تو اپنے پاس سے ایک علت گھڑ لے، رسول اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا:دین میں قیاس نہ کرو کیونکہ قیاس کے ذریعہ دین کو نھیں سمجھا جا سکتا اور پھلا وہ شخص جس نے قیاس کیا تھا ابلیس تھا،آپ نے فرمایا:جو کوئی دین میں قیاس کرے گا گویا اس نے مجھ پر افترا پردازی کی۔ایک دفعہ ابو یسف اھل سنت کے معروف فقیہ نے دوران حج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض کی۔آپ کیا فرماتے ھیں:اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر مُحرم کجاوے میں سوار ھے تو کیا سایہ میں جا سکتا ھے۔ آپ نے فرمایا:نھیں۔ اس نے کھا اگر خیمہ میں ھے تو کیا خیال ھے؟آپ فرمایا: ھاں۔
6- استحسان کا معنی یہ ھے کہ کسی حکم کا اثبات اور صورت میں کرے کہ اس کو وہ حکم پسند ھے بغیر اس کے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل ہو۔
7- ابن عبد البر نے کتاب جامع بیان العلم و فضلہ میں لکھا ھے کہ۔ عمر بن خطاب نے سنت کو لکھنا چاھا مگر پھر ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا لھٰذا انھوں نے تمام (دور و نزدیک کے)شھروں میں یہ حکم لکھ بھیجا کہ جتنی چیزیں بھی سنت سے متعلق لکھی گئی ھیں ان کومٹا دیا جائے۔جامع بیان العلم جلد ۱صفحہ ۶۵ نقل از کتاب۔ فاسئلو اھل الذکر۔سماوی تیجانی صفحہ ۶۱ تا ۲۳۔
8- عمر بن عبد العزیز جب حکومت پر قابض ہوا تو اس نے ابوبکر حزمی سے خواھش ظاھر کی کہ احادث و سنت نبوی اور عمر بن الخطاب کی باتوں کو لکھ ڈالے۔ کتاب سنت واقعی جلد۱ صفحہ ۹۴۔
9- امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:کہ ھمارے پاس ایک ایسی مکمل کتاب ھے جس کو طول ستر (۷۰) ھاتھ ھے پیغمبر کی زبانی امیر المومنین(ع) عليه السلام کی تحریریں ھیں اور کوئی ایسا حلال و حرام نھیں ھے کہ لوگ اس کی ضرورت محسوس؟؟ کرتے ھوں اور اس میں نہ ہواور ھر طرح کے حکم حتی ھلکی سی خراش کے بارے میں بھی حکم موجود ھے۔ اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۲۳۹۔ کتاب بصائرالدرجات صفحہ ۱۴۵۔ ۱۴۴۔ بجاری نے خود اپنی صحیحہ میں لکھا ھے کہ یہ کتاب علی عليه السلام کے پاس تھی اور اس بات کا کئی باب میں تکرار بھی کیا ھے۔ لیکن اپنی عادت کے تحت ان مطالب کو کسی بھی فصل یا باب میں ذکر نھیں کیا ھے۔۔ صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۶ صحیح بخاری جلد۲
صفحہ ۲۲۱ جلد۴ صفحہ ۶۷ صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۱۵۔ اھل سنت واقعی جلد ۱ صفحہ ۸۴۔
10- جامعة الاحادیث جلد ۱ صفحہ ۱۲۔ ۷
متعلقہ تحریریں:
سلسلہٴ سند حدیث ثقلین (حصہ اوّل)
سلسلہٴ سند حدیث ثقلین (حصّہ دوّم)
حدیث ثقلین سے استدلال
حدیث ثقلین کی تحقیق