• صارفین کی تعداد :
  • 1156
  • 4/25/2010
  • تاريخ :

واقعہ طبس اور امریکی جنرل کی دھمکی 

واقعہ طبس        

امریکہ کے ڈپٹی چیف آف جوائنٹ اسٹاف جنرل جیمرکارٹرائٹ نے امریکی سینیٹ کی قائم کمیٹی کو بتایا ہے کہ ایران پر مستقل طور پر قابض ہوکر ہی اسے جوہری ہتھیاروں سے دور رکھا جاسکتا ہے ۔ جنرل جیمز نے مزيد کہا ہے کہ فوجی کاروائي ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے قدرے دور تو کرسکتی ہے لیکن اسے مکمل طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روک نہیں سکتی ۔ اس امریکی جنرل کے خیال میں ایران کو ایٹمی ہتھیاروں سے روکنے کا واحد ذریعہ ایران پر مکمل قبضہ اور اس کے بعد اس کے ایٹمی ہتھیار نابود کرنا ہے ۔ امریکہ کہ ڈپٹی چیف آف جوائنٹ اسٹاف کا یہ مذموم بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ ایرانی عوام نے گزشتہ روز طبس میں امریکی فوجی آپریشن کی ناکامی کی تیسویں سالگرہ منائی ہے ۔ تیس سال پہلے پچیس اپریل سنہ 1980 کو امریکی صدر جمی کارٹر نے تہران میں موجود اپنے جاسو سوں کو رہا کرانے کے لئے ڈیلٹا نامی فوجی آپریشن انجام دینے کا پروگرام بنایا تھا ایران کے مشرقی علاقے کے صحرائی علاقے طبس کو اس مذموم کاروائی کا مرکز قرار دیا گیا تھا اور وہیں سے امریکہ کی جدیدترین فوجی مشینری کے ساتھ یہ کاروائي انجام پانا تھی ۔ ڈیلٹا آپریشن وقت کی سب سے بڑی طاقت کی انتہائي طاقتور فوجی مشینری کا تیار کردہ فوجی آپریشن تھا ۔ ڈیلٹا آپریشن کی تیاری اور طبس کے ماحول اور آب و ہوا سے آشنائی کے  لئے امریکی کمانڈو نے طبس سے ملتے جلتے  مصر کے علاقے میں موجود ایک صحرائی علاقے میں تربیت حاصل کی تھی ۔ آپریشن کی تیاری اس قدر کامل تھی کی صدر کارٹر کامیابی کی خبر سننے کے لئے وائٹ ہاؤس میں بے چین تھے۔ ابرہا کے ہاتھی ایک اسلامی حکومت پر حملے کے لئے تیار تھے جبکہ الہی ابابیلیں ایک ریت کے معمولی طوفان کی صورت میں ہاتھیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے آمادہ و تیار تھیں ۔ امریکی ہیلی کاپٹروں اور جنگي طیاروں کا اسکواڈرن جب تہران کی طرف روانہ ہوا تو عین اسی وقت ایک اور ہیلی کاپٹر فنی خرابی کا شکار ہوگیا اس ہیلی کاپٹر کی خرابی کی وجہ سے فوجی آپریشن میں استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹروں کی تعداد کم ہوگئی کیونکہ اس کاروائی میں کم سے کم چھ ہیلی کاپٹروں کی ضرورت تھی چنانچہ امریکی صدر جمی کارٹر نے کاروائی روک دینے کا حکم صادر کردیا ۔ اس دوران ریت کا معمولی طوفان چلا جس کی وجہ سے طیارے اور ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے ۔ اس ٹکراؤ سے ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور طبس کے تاریک صحرا میں آگ کا ایک الاؤ روشن ہوگیا۔ اس واقعے میں آٹھ امریکی کمانڈوز موقع پر ہلاک ہوگئے جب کہ باقی کمانڈوز پر اس طرح کا خوف و ہراس غالب آگیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو چھوڑ کر انتہائي عجلت میں طبس سے فرار ہوگئے ۔ اس دور میں قومی سلامتی کے امریکی مشیر برژینسکی جو اس کمانڈوز کاروائي کے سب سے بڑے حامی تھے طبس کے اس واقعہ پر امریکی صدر کے ردعمل کے بارے میں کہتے ہیں ۔ جمی کارٹر اس خبر کو سن کر ایک زخمی سانپ کی طرح لوٹنے لگے اور رنج و غم ان کے چہرے سے مکمل طور پر عیاں تھا۔ بہرحال خداوند عالم نے اس طریقے سے مغرور و سرکش قوت کو سرنگوں کیا اور وہ تمام تر تیاریوں اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود شرمناک شکست سے نہ بچ سکے اور انہیں ریت کے معمولی البتہ غیر متوقع طوفان سے عبرتناک شکست کا مزہ چکھنا پڑا ۔ اپنی اس ذلت آمیز شکست کا اعتراف کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ اللہ ایرانیوں کے ساتھ ہے ۔امریکہ کے ڈپٹی چیف آف جوائنٹ اسٹاف جنرل جیمزکارٹ رائٹ نے ایران پر مکمل تسلط اور قبضے کا جو بیان فوجی ترنگ میں آکر دیا ہے اگر وہ اپنے تھنک ٹینکس اور سیاسی رہنماؤں سے مشورہ کے بعد یہ احمقانہ بیان دیتے تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ ان کی اکثریت ایران کے خلاف کسی فوجی ایکشن کی مخالف ہے اور امریکی فوج کے سربراہ جنرل مائيک مولن بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائي آخری حربہ ہوگی اسکے ساتھ ساتھ وہ اس فوجی کاروائی کے خطرناک نتائج سے بھی شدید خوفزدہ ہیں ۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی ایرانی قیادت کو ایک نئی زندگي فراہم کرسکتی ہے اور اگر ایران پر کوئی بیرونی حملہ ہوا تو وہ مزید متحد ہوجائیں گے ۔ امریکہ اور صیہونی حکومت ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے بہانے ایران کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے رہے ہيں لیکن ایرانی قوم اور حکومت خداوند عالم پر توکل کرتے ہوئے ان دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔ آج ایران کا دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران ایک مضبوط دفاع کا مالک ہے اور ا س پر حملہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔ غاصب صیہونی حکومت کئی بار ایران کو فوجی حملے کی دھمکیاں دی چکی ہے لیکن ایران کے دفاعی نظام کے مستحکم ہونے کی وجہ سے وہ بھی اب مجبور ہوگئی ہے کہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹے ۔ غاصب صیہونی حکومت کے حکام اب ایران پر حملے کو احمقانہ قدم سے تعبیر کررہے ہیں بہرحال، صحرائے طبس میں امریکی حملہ اور اس حملے میں امریکہ کی شکست امریکہ کے ڈپٹی چیف آف جوائنٹ اسٹاف جنرل جیمر سمیت سب کے لئے سبق ہے کیونکہ ایران کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے والوں کو ایک خطرناک اور غیر متوقع ردعمل کا سامنے کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ 

     اردو ریڈیو تہران