• صارفین کی تعداد :
  • 3682
  • 4/24/2010
  • تاريخ :

ماں بچوں کی تربیت کیسے کرے (حصّہ سوّم)

بچّہ

ماں اور بچے کا رشتہ انمول ہے.... ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بہتر طور پر سمجھے تاکہ وہ ایک نسل کی تربیت قابلِ فخر اور شخصی بنیادوں پر کر سکے۔ ماں پڑھی لکھی ہو یا جاہل.... کسی بھی طبقے کی ہو اس کی ممتا منقسم نہیں ہو سکتی۔ اسٹیٹس اور معاشی حالات کے پیشِ نظر ماں کے کردار کو صرف ”ماں“ ہی ہونا چاہیے وہ ممی ہو مما ہو یا اماں.... اس کی گود اگر پہلی درس گاہ ہے تو اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو پہلا سبق کیا دیتی ہے؟ اس کی ابتدائی تربیت کن خطوط پر کرتی ہے.... بچپن ہی سے ماں کو ہر رشتے اورتعلق کو اسی تکریم اور احترام سے متعارف کروانا چاہیے جس کا وہ مستحق ہے۔ کسی کی تذلیل و تحقیر کرنے سے قبل اسے اپنے بچوں کے معصوم ذہنوں کا بھی خیال رہنا چاہیے.... والدین جو بھی فعل کرتے ہیں بچہ اسے ضرور اختیار کرتا ہے.... یہی وجہ ہے کہ باپ کو بچوں کے سامنے سگریٹ نوشی وغیرہ سے منع کیا جاتا ہے.... اسی طرح بعض مائیں بھی خاصی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں.... کسی کو لعن طعن کرنا ہوتو بھی مہذب دائرے میں رہ کر.... کسی غلط کام پر ٹوکنا ہو.... کسی غلط فعل پر ممانعت کرنی ہو.... کسی ناجائز خواہش پر سمجھانا ہو.... کسی ضد پر بچے کو بہلانا ہو.... ہر ہر کام اور فعل میںتربیت کا پہلو مدّ نظر رکھنا چاہیے۔

    بچہ ہر عمل، ہر بات، ہر حرکت اور ہر عادت سے سیکھتا ہے.... اسے بچپن میں جیسا ماحول دیا جائے اس کی شخصیت ویسی ہی ہوتی ہے.... بچپن سے ہی بچے کو منصفی کے پیمانے پر پورا اتر کر دکھانا چاہیے.... یہ نہیں کہ ایک بچے کو زیادہ چیز دی اور دوسرے کو کم.... ایک سے لاڈ پیار زیادہ جتانا اور دوسرے سے کم.... معصوم بچے ہر ہر حرکت کو ذہن میں رکھ کر اس کے محرک پر غور و خوض کرتے ہیں.... ان میں تجسس کا مادہ حد سے سوا ہوتا ہے وہ کیا؟ کیوں؟ کیسے ؟ سے سیکھتے ہیں....

    ہرماں کے لیے اولاد کتنی ہی ہو ہر بچے کے لیے ماں ”ایک“ ہی ہوتی ہے.... ماں ہر بچے کے لیے ”انسٹی ٹیوٹ“ کا درجہ رکھتی ہے.... آج کل کی”ماں“ پڑھی لکھی تو ہے لیکن باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ”روشن خیال“ بھی ہو گئی ہے.... اسی لیے ہر ماں سے گزارش ہے کہ وہ ابتدائی چند سالوں تک بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنے ذاتی مقصد اور شخصیت کو پس پشت ڈال کر صرف اس کی بہترین تربیت پر توجہ دے۔ اسے اپنے بچے کو شروع سے ہی باادب اور مہذب ماحول دینا چاہیے.... بچپن سے ہی مال بانٹ کر کھانے کا سلیقہ سیکھانا چاہیے.... بڑوں کے ادب واحترام اور چھوٹوں سے محبت بھرے سلوک پر زور دینا چاہیے، ہر جائز و ناجائز پر ”امناً صادقا“ کہنے کی بجائے صرف جائز ضروریات اور خواہشات کے حصول پر عمل کرنا چاہیے.... ہر ضد اور خواہش پوری کرنا بچے سے محبت نہیں اس پر ظلم ہے.... کیونکہ جسے بچپن سے ”نہ سننے“ کی عادت نہ ہو۔ وہ بڑا ہو کر بھی انکار نہیں سننا چاہتا.... چاہے مقصد یا مطمع نظر کچھ بھی ہو.... حد سے زیادہ سختی کی طرح حد سے زیادہ لاڈ پیار بھی بچے کی شخصیت کو بگاڑ دیتا ہے.... ہر شے اور ہر کام اعتدال میں ہونا چاہیے۔

    سب سے بڑھ کر ماں کو ماں ہی رہنا چاہئے.... کوئی ماڈل، شو پیس یا میم نہیں.... جسے اپنے بچوں کی تربیت سے زیادہ اپنے کپڑوں، جیولری اور میک اپ کی فکر دامن گیر رہے.... درحقیقت ماں ایسا وجود ہے.... جس کا چہرہ پر نور اور لب دعاﺅں سے مسکراتے ہیں آج کل کی ماں بھی کوئی ”ماں“ ہے.... وہ تو چلتا پھرتا اشتہار بن گئی ہے۔ اللہ اس کے حال پر رحم کرے جو قدموں تلے جنت رکھ کر اس پر چھ چھ انچ کی ہیل لیے پھرتی ہے.... اور جس کی ہتھیلیوں میں مقدس دعاﺅں کی بجائے اب مہنگے مہنگے موبائل فون، پرس اور بیش قیمت زیورات ہوتے ہیں۔ جس کے وجود سے ممتا کی بجائے ڈیوڈرنٹ اور پرفیومز کی مہک آتی ہے۔

بشکریہ لاہور اپ ڈیٹس


متعلقہ تحریریں :

ماں باپ كى ذمہ داري

تربيت اولاد