• صارفین کی تعداد :
  • 3043
  • 4/13/2010
  • تاريخ :

ناصر آل محمد (حصّہ دوّم)

بسم الله الرحمن الرحیم

حضرت امام حسن عسکری (ع) بحوالہ حضرت رسول کریم و حضرت علی علیہ السلام بطور پیشگوئی ارشاد فرماتے ہیں کہ یسلطہ اللہ علیھم للانتقام بما کانوا یفسقون اللہ تعالی ان کے فسق و فجور کا انتقام لینے کے لیے حضرت مختار کو ان پر مسلط کرے گا (آثار حیدری ترجمہ تفسیر امام حسن عسکری ص ۴۸۱طبع لاہور)

اسی بناء پر مختار نے فرمایا ہے کہ اگر میں ایک لاکھ آدمیوں کو بھی امام حسین (ع) کے ایک قطرہ خون کے عوض قتل کرنا چاہوں تب بھی اس کا بدلا نہیں ہو سکتا ۔ (تاریخ طبری جلد ۴ص۶۵۷) مختار کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اس کا مزہ وقت موعود سے پہلے دنیا میں میرے ہاتھوں سے چکھ لیں انہیں یہ پتہ چل جائے کہ کسی کو جو تکلیف پہنچائی جاتی ہے اس کا اثر ستم رسیدہ پر کیونکر پہنچتا ہے اور کیسے صدمہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جس نے کربلا میں جو کچھ کیا تھا اس کو اسی طرح کا بدلا دیا ہے جس نے تیر مارا تھا اسے تیر مارا جس نے تلوار لگائی تھی اسے تلوار لگائی ۔ جس نے لاش کو پامال کیا تھا اس کی لاش پامال کی ۔ مطلب یہ ہے کہ شہدا کربلا کے خون کا بدلا بدستور باقی ہے جو قیامت میں حضرت حجت علیہ السلام کے ہاتھوں لیا جائے گا جس کے نتیجہ میں اصل و نسل کو قتل کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔ (مجمع البحرین ص۲۷۶اسرار الشہادت ص۵۸۱) کارنامہ مختار کے سلسلہ میں اجازت امام کا تذکرہ بھی آتا ہے ۔ میرے نزدیک حضرت مختار نے جس نیت و ارادہ اور جس جذبہ و عقیدت سے قاتلان حسین کو قتل کیا ہے وہ اجازت کا محتاج نہیں کیونکہ اس کا تعلق حس روحی احساس دماغی اور جذبہ قلبی سے ہے ۔ جو فطرةً اجازت کا پابند نہیں ہوا کرتا ۔ نالہ پابند نے نہیں ہوتا ۔ تاہم یہ مسلم ہے کہ حضرت مختار نے کھلی ہوئی اجازت کی سعی کی تھی جو نصیب نہیں ہو سکی (مروج الذہب مسعودی برحاشیہ کامل جلد ۶ ص ۱۵۵) لیکن پھر بھی انہوں نے جو کچھ کیا وہ غیر ممدوح نہیں ہے (تاریخ ابو الفداء جلد ۲ص۱۴۹ ) کیونکہ علما کا اتفاق ہے کہ حضرت مختار اطاعت گذار بادشاہ کی طرح اٹھے اور انہوں نے دشمنان خدا کی طرف لمبے ہاتھ بڑھائے اور ان کی ان ہڈیوں کو جو فسق و فجور سے بنی تھیں ۔ بھوسہ بھوسہ کر دیا اور ان کے ان اعضاء جوارح کو جس کی نشو و نما شراب سے ہوئی تھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ و حاز الی فضلیة لم یرق الی شعات نزفیھا عربی ولا عجمی واحمذ منقبة لم یسبقہ الیہا ہاشمی۔ مختار نے وہ فضلیت حاصل کر لی جس کی عظیم بلندی کو نہ کوئی عربی پہنچ سکاؤ کوئی غیر عربی اور وہ سبقت حاصل کرلی جس کی طرف کسی ہاشمی سے بھی سبقت نہیں ہو سکی (ذوب النفنار ص۴۰۱ء) یہی وجہ ہے کہ ان سے رسول خدا فاطمہ زہرا (س) اور آئمہ ھدی خوش ہیں۔ (ساکبہ ص۴۱۱) اس کے متعلق میرا کہنا ہے کہ صریحی اجازت ثابت ہو  یا نہ ہو لیکن امام معصوم کی عدم رضا ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہے ۔ کما ینطق کتا بنا ھذا بالحق۔

مصنف: مولانا نجم الحسن کراروی


متعلقہ تحریریں:

جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )

گوہر شاد آستانہ قدس رضوي كي خادمہ