• صارفین کی تعداد :
  • 2930
  • 2/28/2010
  • تاريخ :

جوش ملیح آبادی کی یاد میں 

جوش ملیح آبادی

عظیم شاعر جوش ملیح آبادی کا انتقال اسلام آباد میں 22 فروری سنہ 1982 کو ہوا تھا ۔  لیکن اس عرصے میں بھی جوش کے نام پر تنازعات کم نہیں ہوئے۔

ان کاخاندانی نام شبیر احمد خاں تھا۔  جسے بعد میں بدل کر شبیر حسن خاں کر دیا گیا تھا۔  ان کی پیدائش پانچ دسمبر 1898 کو ملیح آباد کے ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی۔  ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر بھی شاعر تھے اور داد انواب احمد خاں کا بھی شاعری سے تعلق تھا۔  اس کے علاوہ ان کے پر دادا نواب فقیر محمد خاں صاحب دیوان شاعر تھے۔ ان کے خاندان میں خواتین شاعرات بھی موجو د تھیں۔  جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خاں، مرزا غالب کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔  اس طرح جوش کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔  لیکن جوش صرف شاعر نہیں تھے ایک ہشت پہلو شخصیت تھے۔   جہاں انہیں شاعری پر زبر دست کمال حاصل تھا۔  وہیں نثر پر بھی انہیں درک تھا۔ ان کی نثر اپنی مثال آپ ہے۔ 

جوش کا تعلق فلم اور صحافت سے بھی رہا انہوں نے دہلی سے ایک ادبی رسالہ ” کلیم “ شائع کیا تھا لیکن مالی مشکلات کے سبب بہت دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔ بعد میں وہ بھارت سرکاری کے رسالہ ” آج کل “ کے مدیر بنائے گئے تھے لیکن یہاں بھی زیادہ دنوں نہیں ٹک سکے ۔

در اصل جوش کی طبیعت میں اجتماع ضدین تھا اسی لئے وہ کہیں بھی ٹک کر نہیں رہ سکے، نظام حیدر آباد کے دارالترجمہ میں تھے تو  نظام کے خلاف ہی نظم لکھ دی اور انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ بعد میں وہ بھارت سرکار کے رسالہ ” آج کل “ کے مدیر ہوئے لیکن سنہ 1955 میں پاکستان ہجرت کر گئے۔  وہاں بھی ان کی وابستگی ترقی اردو بورڈ میں رہی۔  لیکن اختلافات کے سبب ان کو وہاں سے بھی سبکدوش ہونا پڑا۔ 

جوش نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا تھا اور سنہ 1943 سے سنہ  1948 کے درمیان متعدد فلموں کے گانے اور مکالمات لکھے۔

جوش کے شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:

روح ادب، شاعر کی راتیں، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، حرف و حکایت، آیات ونغمات، عرش وفرش، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو، سرود و سروش، سموم و صبا، طلوع فکر، الہام و افکار، موحد و مفکر، نجوم و جواہر۔

ان کی نثری کتابوں کے نام ہیں:

مقالات زریں، اوراق سحر، ارشادات، اور یادوں کی بارات۔

جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت ہی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔  یادوں کی بارات سنہ 1972 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی اور جوش کا انتقال 22 فروری سنہ 1982 کو ہوا۔

جوش ملیح آبادی کا مزار

 ایک طرح سے وہ دس برسوں تک تنازعات میں گھرے رہے اور اس کے باعث انہیں بے حد دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے عتاب کے بھی شکار ہوئے۔  لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جوش جہاں ایک عظیم شاعر تھے وہیں وہ صاحب طرز نثاربھی تھے او رکیوں نہ ہوتے انہوں نے صرف 9 برس کی عمر میں کہا تھا :

 

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مرا فن خاندانی ہے

 

لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ شاعری جوش کو راس نہیں آسکی۔  اسی لئے انہیں ’ یادوں کی بارات“ میں لکھنا پڑا:

”آخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس قوم میں کسی صاحب قلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہرادیب و شاعر کو چاہئیے کہ وہ خود کشی فرما لے ۔ “

رضوان احمد، پٹنہ


متعلقہ تحریریں :

گربچن چندن کی شخصیت

مير تقی میر