• صارفین کی تعداد :
  • 2241
  • 2/21/2010
  • تاريخ :

کپاس کا پهول (حصّہ پنجم)

کپاس

   کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

 

“ نہیں بیٹی“۔  مائی تاجو کھل کر رو رہی تھی۔ “ لے لیتی پر آج تمھاری ماں نے مجھے بتایا ہے کہ میں محتاج ہوں اور چکی پیس پیس کر جو میرے ہاتھوں پر جو گٹے پڑ گئے ہیں وہ مجھے کچھ اور بتاتے ہیں۔ سو بیٹی یہ روٹی میں نہیں لوں گی۔ اب کبھی نہیں لوں گی۔ تمھاری لائی ہوئی کل شام والی روٹی میری آخری روٹی تھی۔ یہ روٹی اپنے کتے کے آگے ڈال دو“۔

     اس کے بعد اس نے سنا کہ راحتاں اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ پھر راحتاں رونے لگی اور اس کی ماں اسے ڈانٹنے لگی۔ اس کے بعد فتح دین کی آواز آئی۔

   ۔ “ سونے دو گی یا میں چوپال پر جا کر پڑ رہوں؟“۔

     پھر جب سب خاموش ہوگئے تو مائی تاجو اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا کے راحتاں اپنے بستر پر پڑی آنسو بہا رہی ہے وہ دیوار تک گئی بھی مگر پھر فتح دین کے ڈر سے پلٹ آئی ۔ گھڑے میں سے پانی پیا اور دیر تک ایلومینیم کا کٹورا اپنے چہرے پر پھیرتی رہی۔ آج وہ کتنی تپ رہی تھی اور یہ پیالہ کتنا ٹھنڈا تھا۔ اب گرمیاں ختم سمجھو ۔ اسے اپنے لحاف کا خیال آیا۔ جس کی روٹی لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی۔ اب کے اسے دھنکواؤں گی۔ پر اللہ کرے دھنکوانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ کرے اب کے لحاف کی بجائے میں کفن اوڑھوں ۔۔۔۔ !!!

     وہ گھڑے کے پاس سے اٹھ کر چارپائی تک آگئی۔ کچھ دیر تک پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ پھر اسے ایک لمبی سانس سنائی دی۔ یہ راحتاں کی سانس ہوگی۔ہائے خدا کرے وہ سدا سُکھی رہے۔ اسی پیاری بچی اس نک چڑھی کے ہاں کیسے پیدا ہوگئی! اسے تو میرے ہاں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ اسے اپنا حسن دین یاد آگیا اور وہ رونے لگی۔ پھر آنسو پونچھ کر لیٹی تو آسمان سے ستارے جیسے نیچے لٹک آئے اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلنے لگے۔ فتح دین کا کتا غرا کر ایک بلی پر جھپٹا اور بلی دیوار پر سے پھاند کر اس کے سامنے سے گولی کی طرح نکل گئی۔کسی گھر میں مرغے نے بانگ دی اور پھر بانگوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔

     یکایک سب مرغے ایک دم یوں خاموش ہوگئے، جیسے ان کے گلی ایک ساتھ گھونٹ دئیے گئے ہیں۔ پورے گاؤں کے کتے بھونکنے لگے۔

پھر مشرق کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں جیسے قریب قریب ہر رات آتی ہیں۔ بارڈر پر رینجرز سمگلروں کے تعاقب میں ہوں گے۔ پھر اس پر غنودگی سی چھانے لگی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر ایک دم کھول دیں۔ بڑی آئی وہاں سے مجھے محتاج کہنے والی! چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے اور مجھے محتاج کہتی ہے! قیامت کے دن شور مچا دوں گی کی اسے پکڑو اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔ مگر وہاں کہیں یہ میری راحتاں بیچ میں نہ بول پڑے۔

     اٹھ کر اس نے پانی پیا اور واپس جا کر چارپائی پر پڑگئی۔ پھر جب پو پھٹی تو اس کا حلق اس کے جوتے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہا تھا۔ وہ پھر پانی پینے کے لیے اٹھی لیکن دوسرے ہی قدم پر چکرا کر گِر پڑی۔ سر گھاٹ کے پائے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہوگئی۔

   جب مائی تاجو ہوش میں آئی تو اسے پہلا احساس یہ ہوا کہ نماز قضا ہوگئی ہے۔ پھر ایک دم وہ بڑبڑا کر اٹھی اور دیوار کی طرف بھاگی۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں اور عورتیں چیخ رہی تھیں اور بچے بلبلا رہے تھے اور دھوپ میں جیسے سوراخ ہوگئے ہوں جن میں سے دھواں داخل ہورہا تھا۔ دور سے گڑگڑاہٹ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں اور گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔

   “ راحتاں !۔۔۔ اے بیٹی راحتاں !!“۔ وہ پکاری۔

     راحتاں اندر کوٹھے سے نکلی۔ اس کا سنہرا رنگ مٹی ہورہا تھا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کی آواز میں چیخیں اور آنسو اور کپکپی اور ناجانے کیا کچھ تھا۔ “ جلدی سے نکل آؤ مائی، گاؤں‌میں سے نکل جاؤ، لاہور کی طرف بھاگو۔ ہم بھی لاہور جا رہے ہیں۔ تم بھی لاہور چلو۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے“۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر بھاگ گئی۔

   ۔ “ ہندوستان کی فوج آگئی۔ یہاں ہمارے گاؤں میں کیوں آگئی؟ بارڈر تو تین میل ادھر ہے۔۔۔ !! “۔

   ۔ “ یہ فوج یہاں کیوں آئی ہے بیٹی؟“۔ مائی حیران ہو کر پکاری۔ “ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئی! بھائی فتح دین کہاں ہیں؟ اسے بھیجونا وہ انہیں سمجھائے کے یہ پاکستان ہے“۔

     مگر راحتاں کا کوئی جواب نہ آیا۔ شور بڑھ رہا تھا۔ مشرق کی طرف کوئی گھر جلنے بھی لگا تھا۔ چند گولیاں اس کے کوٹھے کی دیوار کے اوپر والے حصے پر تڑاخ تڑاخ سے لگیں اور مٹی کی لپائی کے بڑے بڑے ٹکڑے زمین پر آرہے۔ چند گولیاں ہوا کو چیر دینے والی سیٹیاں بجاتی چھت پر سے گزر گئیں۔  فتح دین کے صحن کی ٹاہلی پر سے پاگلوں کی طرح اُڑتا ہوا ایک کوا اچانک ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا آیا اور مائی تاجو کے گھڑے کے پاس پتھر کی طرح گر پڑا۔

     پھر زور کا ایک دھماکا ہوا اور مائی جو دیوار سے ہٹ آئی تھی، پھر دیوار کی طرف بڑھی۔ ایک دم چودھری فتح دین کے دروازے کو کسی نے کوٹ ڈالا۔ پھر کواڑ دھڑام سے گرے۔ اکٹھی بہت سی گولیاں چلیں اکٹھی سب سے چیخیں بلند ہوئیں۔ ماں نے ان میں سے راحتاں کی چیخ کو صاف پہچان لیا۔ “ راحتاں بیٹی!“۔ وہ چلائی لاٹھی ٹیکتی ہوئی لپکی اور اپنے دروازے کی کنڈی کھول کر باہر گلی میں آگئی۔

مؤلف : احمد ندیم قاسمی