• صارفین کی تعداد :
  • 3204
  • 1/27/2010
  • تاريخ :

سیاسی صیہونیزم کی تشکیل کے اسباب

صیہونیزم  کا نشان

سیاسی صیہونیزم انیسویں صدی میں مختلف وجوہات کی بنا پر معرض وجود میں آیا۔ ان میں سے ایک وجہ یہودی ستیزی کی بحث ہے جو 1880 کی دہائی کے شروع میں "یوگرومز" کی شکل میں روس میں ظاہر ہوئی۔ یوگرومز یہودیوں کے پاس ایک الگ اور خودمختار حکومت بنانے کا اصلی بہانہ سمجھا جاتا ہے۔ پنسکر نے 1882 میں "خودمختاری" کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اس بات پر زور دیا کہ یہودی ستیزی کی اصلی وجہ یہودیوں کی بزدلی ہے۔ اس نے اس کتاب میں یہودیوں کو منظم ہونے کی ترغیب دلائی۔ اس نے اس بارے میں یوں لکھا:

"دنیا یہودیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ دنیا میں ہماری کوئی وطن نہیں ہے اور ہم ہر جگہ اجنبی سمجھے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ ساری دنیا کے یہودی فلسطین میں جمع ہو جائیں اور ایک آزاد یہودی ریاست قائم کریں"۔

 اس کا نتیجہ یہودی کانگرس کی تشکیل تھا۔ سیاسی صیہونیزم کی تشکیل میں ایک اور اہم کردار فلسطین میں عبری زبان کے احیاء کی تنظیم کا تھا۔ یہ تنظیم مختلف وجوہات کی بنا پر 1880 اور 1881 میں روس سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کا نتیجہ تھی۔ ان متعصب یہودیوں نے اپنے قومی مفادات کی خاطر فلسطین میں اس زبان کی ترویج شروع کی تاکہ دنیا کے مختلف حصوں سے

” دوسری جنگ عظِم میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد ہرٹسل نے فلسطین میں ایک یہودی ایجنسی قائم کی جس کو برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ “

آنے والے یہودی ایک مشترکہ شناخت پیدا کر سکیں۔ اسی طرح صیہونیزم کی تشکیل کی ایک اور اہم وجہ ہرٹسل کی طرف سے "یہودی حکومت" نامی کتاب کا منظر عام پر آنا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت نے اس وقت کے یہودیوں میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کر دی۔ ہرٹسل نے جب دیکھا کہ اسکی کتاب کا کس قدر استقبال کیا گیا ہے تو وہ اپنی فکری استعداد کی بنیاد پر صیہونیزم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے پر تیار ہو گیا۔ لہذا اس نے عثمانی خلیفہ عبدالحمید سے رابطہ کیا۔ وہاں سے مثبت جواب نہ ملنے پر برطانوی حکومت سے رابطہ کیا۔ اسکے بعد سے یہودیوں کے نزدیک اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے برطانیہ ایک اہم گزینہ بن گیا۔ اسی طرح برطانیہ یہودیوں کے اقتصادی اداروں کا مرکز بن گیا۔ یہودیوں کا نیشنل فنڈ، یہودی ٹرسٹ اور دوسری بہت سی یہودی کمپنیاں برطانوی کمپنیوں کے روپ میں سرگرم عمل ہو گئیں۔ برطانیہ نے بھی اپنے استعماری اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہودیوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی اور انہیں اپنے زیر سایہ قرار دیا۔

سیاسی صیہونیزم کا بانی:

اگرچہ فلسطین میں یہودیوں کی آمد کا زمینہ مختلف یہودی تنظیموں نے فراہم کیا تھا لیکن سیاسی صیہونیزم اور اسرائیلی کا بانی تھئوڈور ہرٹسل کو سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ نظریہ 1896 میں ہرٹسل کی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد وجود میں آیا۔ اس کتاب میں اس نے صہیونیسم کی ایک نئی تعریف پیش کی۔ اس کتاب کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ یہودی دنیا میں جہاں بھی ہیں ایک قوم کو تشکیل دیتے ہیں،

۲۔ وہ دنیا میں ہر جگہ آزار و اذیت کا شکار رہے ہیں،

۳۔ وہ جن اقوام میں زندگی بسر کر رہے ہیں ان میں گھل مل نہیں سکتے۔

ہرٹسل نے 1887 میں "دی وسٹ" کے نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا جو صیہونیستی سوچ کو پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کرنے لگا۔ اسی سال ہرٹسل نے سویٹزرلینڈ کے شہر بال میں ایک صیہونیستی کانگرس کی تشکیل کا اہتمام کیا۔ اس کانگرس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین میں ایک یہودی مرکز ایجاد کیا جائے اور ایک بین الاقوامی صیہونی تنظیم کی بنیاد ڈالی جائے جس کا ہدف "یہودی قوم کیلئے ایک آزاد اور خودمختار وطن کا قیام" ہو۔ اسی طرح اس کانگرس میں ہرٹسل کو بین الاقوامی صیہونی تنظیم کے صدر اور دوسرے افراد میں سے اس کے معاونین کے طور پر انتخاب کیا گیا۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز


متعلقہ تحریریں:

بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ

فلسطین کی تاریخ اور اس پر تسلط حاصل کرنے کے طریقہ کار