• صارفین کی تعداد :
  • 3049
  • 12/30/2009
  • تاريخ :

ولادت علی (ع) کے سلسلہ میں علماء، مؤرخین و محدثین اہل سنت کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام

حاکم نیشابوری

امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔ (1)

حافظ گنجی شافعی

امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب ، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے ۔ (2)

علامہ ابن صبّاغ مالکی

علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب ،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (3)

احمد بن عبد الرحیم دہلوی

شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:

”بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “ (4)

 علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے

”جناب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اورجناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئيں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔“ (5)

 ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :

”جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب(ع) بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب (ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع) کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب (ع) نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (6)

علامہ سکتواری بسنوی

اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب (ع)سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کا نام تفأل کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔ (7)

علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)

حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ (8)

صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ (ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (9)

حافظ شمس الدین ذہبی

حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (10)

آلوسی بغدادی

یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔ (11)

وہ آگے لکھتے ہیں:

   جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھا اس کی خدمت کریں۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔  (12)

1- مستدرک حاکم نیشاپوری ،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں) و کفایۃ الطالب،ص۲۶۰

2- کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷

3- الفصول المہمۃ ،ص۳۰

4- ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱

5- تذکرۃ الخواص ،ص۲۰

6- مناقب ابن مغازلی ،ص ۶، ح۳ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰

7- محاضرۃ الاوائل ،ص۷۹

8- وسیلۃ النجاۃ ،محمد مبین حنفی ،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو )

9-  وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی ، ص۲۸۲

10-  تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳

11-  غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ و الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲

12- ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص۲۵۱

   تحریر :  مولانا صفدر حسین یعقوبی 

              مہدی مشن ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

مولا علی علیہ السلام

علی علیہ السلام؛ نومسلم ولندیزي خاتون کی نگاہ میں