• صارفین کی تعداد :
  • 3517
  • 11/29/2009
  • تاريخ :

بابری مسجد کی شہادت اور برصغیر کی مسلمان قوم ( حصّہ دوّم )

بابری مسجد

6 دسمبر 1992 ء کو اجودھیا میں واقع تقریبا 500 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا ۔ بابری مسجد کے مسمار کۓ جانے کے موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیر رہنما لال کرشن ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، ونے کٹیار اور اوما بھارتی سمیت متعدد ہندو لیڈران بھی موجود تھے ۔ اس واقعہ کے دس دن میں جسٹس لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسے تین ماہ کے اندر یعنی  16 مارچ 1993 تک اس بات کا پتہ لگا کر اپنی رپورٹ دینی تھی کہ کن حالات کے نتیجے میں بابری مسجد مسمار کی گئی ۔ لیکن یہ بھارت کی تاریخ کا سب سے طویل انکوائری کمیشن ثابت ہوا اور اس کی مدت کار میں ریکارڈ 48 مرتبہ توسیع کی گئی ۔ بابری مسجد کی جگہ وہاں پر ایک عارضی مندر تعمیر کر دیا گیا ۔ بعض ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان رام اسی مقام پر پیدا ہوۓ تھے اس لیۓ وہ وہاں ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے کئی حصوں میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں بڑی تعداد میں مسلمان مارے گۓ تھے ۔

بابری مسجد کی شہادت اگر ایک جانب ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک المیہ تھا تو ساتھ ہی بابری مسجد نے ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھیں بھی کھول دی۔ اب ہندوستانی مسلمانوں کو بابری مسجد الیکشن کمیٹی جیسی تنظیموں اور کانگریسی مسلم سیکولر قیادت پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔

اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی والی مسلم قوم کسی بھی قسم کی قیادت پیدا کرنے میں ناکام رہی؟ ایک تو ملک کی تقسیم نے ہندوستانی مسلمانوں کو  مزید اقلیت میں تبدیل کرتے ہوۓ ایک ایسے نفسیاتی تناؤ میں مبتلاء کردیا کہ وہ اپنے مفاد کی بات کرنا تو دور کی بات،خود کو ظاہر کرنے سے بھی کترانے لگے۔ ہندوستان میں مسلم مفاد کی بات کرنا دوسرا پاکستان بنانے کے مترادف سمجھا جانے لگا، اس لئے ڈرے سہمے ہندوستانی مسلمان تقسیم ہند کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے کانگریس جیسی سیکولر پارٹی سے محض اپنے تحفظ کی امید پر ہی قناعت کرنے لگے۔ جب کہ کانگریس راج میں کبھی جمشید پور، کبھی علی گڑھ، کبھی حیدرآباد اور کبھی میرٹھ کی مسلم آبادیاں فسادات میں نذر آتش ہوتی رہیں۔ حد یہ ہے کہ نرسمہا راؤ نے لال قلعہ کی فصیل پر بابری مسجد کی قسمیں کھائیں اور مسجد کی شہادت کے وقت ان کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ جھوٹے وعدے اور تسلیاں کبھی کام نہ آئیں گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو  متحد کرتے ہوۓ ایک قوم ہونے کا احساس دلایا جاۓ ۔ جب موجودہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو یقین ہو گا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسنے والے  برصغیر کے دوسرے مسلمان ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں تب وہ ہندوؤں کی عددی برتری سے خائف نہیں ہونگے اور ہندو عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنتے ہوۓ اپنے مذھبی اور دینی روایات کا تحفظ کریں گے ۔

تحریر: سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

بابری مسجد کی شہادت اور برہمن واد

ہندوازم میں کھوکھلا پن