• صارفین کی تعداد :
  • 2927
  • 11/29/2009
  • تاريخ :

بابری مسجد کی شہادت اور برصغیر کی مسلمان قوم

بابری مسجد کی شہادت

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ  ابھرے  گا جتنا کہ دبا دو گے

برصغیر پاک وہند پر مسلمانوں نے ساڑھے سات سو سال تک حکومت کی ۔ اپنے دور حکومت میں مسلمان حکمرانوں نے انتہائی میانی روی سے کام لیتے ہوۓ اپنے زیرانتظام علاقوں میں تمام مذاھب کے پیروکاروں کو مکمل مذھبی آزادی دی تاکہ وہ اپنی مذھبی روایات کو جیسے چاہیں پروان چڑھا سکیں ۔ مسلمانوں کے دور حکومت  میں تمام مذاھب کے پیروکاروں اور ان کے مذھبی مقامات کو تحفظ حاصل تھا ۔  گو کہ ہندو انتہا پسند تاریخ دانوں نے مسلمانوں کو ظالم اور جنگو قوم ظاہر کرنے کی کوشش کی اور اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلنے والا مذھب قرار دیا لیکن حقیقت میں چند  ایک جنگوں کے سواء مسلمان حملہ آوروں نے کسی بھی مذھب کے مقدس مقام کو  زمانہ امن میں کھبی بھی نقصان نہیں  پہنچایا ۔ اگر مسلمان حکمران ظالم  ہوتے اور اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہوتا تو پھر اس وقت ہندوستان میں ایک بھی ہندو موجود نہ ہوتا  کیونکہ  ساڑھے سات سو سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا ۔

برصغیر پاک وہند  کی مقامی لوگ مسلمان تاجروں، حکمرانوں کے حسن سلوک اور صوفیاء و علماء کرام کی تبلیغ سے متاثر ہو کر خوشی سے اسلام قبول کرتے رہے ۔ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک خطے کا نام تھا جہاں مختلف قومیں اور مختلف مذاھب کے پیروکار اپنے الگ الگ تہذیبوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اسلام کی  برصغیر میں آمد کے ساتھ یہاں پر مسلمان قوم کا وجود عمل میں آیا ۔ یہ درست ہے کہ مقامی لوگوں کے آباؤ و اجداد ہندو ، بدھ مت ، زرتشت یا اور بہت سے  دوسرے مذاھب کے پیروکار تھے مگر انہیں لوگوں اور ان کی آنے والی نسلوں  نے جب ہدایت کی روشنی پا لی، جب ایک رب کائنات کی ذات کے ماننے والے بن گۓ ، خدا کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر ایمان لے آۓ تب وہ اس عالمگیر مذھب اور قوم میں داخل ہو گۓ جسے اسلام اور مسلمان کہتے ہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت شاہ ولی اللہ ،حضرت سر سید احمد خان نے ہندوستان  کے مسلمانوں کو ایک قوم کا درجہ دیا اور  محمد علی جناح نے  تو یہ بھی کہا تھا کہ:

" ہندوستان میں اسلامی ریاست کا قیام اسی وقت عمل آ چکا تھا جس دن پہلا ہندو اسلام کے دائرہ میں   داخل ہوا "

مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ مسلمانان ہند پر زوال کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس میں ہندو اور انگریز نے مل کر مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ۔ مسلمانوں کو زندگی  کے ہر شعبے میں نقصان پہنچا کر ان کے الگ تشخص کو مٹانے اور  انہیں ہندو ازم میں زم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلمانوں نے اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیۓ الگ وطن کا مطالبہ کیا اور اسے حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گۓ ۔ مسلمانوں کے عظیم لیڈروں نے مسلمانان برصغیر کو ایک قوم کا درجہ دیا ہے ، آج اس قوم کو پاکستان اور بنگلہ دیش میں جو کہ اسلامی ریاستیں ہیں ایک الگ اسلامی تشخص اور مذھبی آزادی حاصل ہے مگر موجودہ  ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان آج بھی ہندو انتہا پسند جماعتوں کے خوف کے ساۓ تلے  زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہندو اسٹیبلشمنٹ ایک منظم سازش کے ذریعے  موجودہ ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں پر ایک خاص وقفے کے بعد حملے کروا رہی ہیں تاکہ  ان اقلیتوں کو ہندو ازم  قبول کرنے پر مجبور کر دیا جاۓ اور انہیں  یہ احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو ہندو بن کر ہی  انہیں تحفظ حاصل ہو سکتا ہے ۔  1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت ، 2002ء میں گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام اور پھر حال حاضر میں عیسائی بستیوں پر ہندو انتہا پسنداؤں کے حملے ان سازشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

تحریر : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

ہندوستان کی مسلمان قوم کے لیۓ لمحہ فکریہ