• صارفین کی تعداد :
  • 2652
  • 11/1/2009
  • تاريخ :

موت پر گفتگو ( حصّہ سوّم)

قبرستان

موت پر گفتگو

موت پر گفتگو ( حصّہ دوّم)

سوال:     کس طرح اس کو قبلہ رخ کروں؟

جواب:      اس کو چت لٹا کر اس کے پیروں کے تلوؤں کو قبلہ رخ کردوں؟

سوال:     اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کے پیروں کوقبلہ کی طرف دراز کروں؟

جواب:      ہاں اچھے طریقہ سے، چاہے یہ محتضر مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، اور مستحب ہے کہ اس کو کلمہ”شھادتین“ کی تلقین کی جائے اور اسے نبی  (ص)  اور آئمہ علیہم السلام کا اقرار کرایا جائے اور اس کے نزدیک سورہ (الصافات) کی تلاوت کی جائے تا کہ اس پر نزع کا عالم آسان ہو ، اور محتضر کے پاس مجنب و حائض کا رہنا مکروہ ہے، اور حالت نزع میں اس کو چھونا مکروہ ہے۔

سوال:     اور جب وہ مرجائے تو؟

جواب:      مستحب ہے کہ اس کی آنکھوں اور منہ کو بند کیا جائے اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اس کے دونوں پہلوؤں اور پیروں کو سیدھا کیا جائے،اس کو کسی کپڑے سے ڈھا نپ دیا جائے اور اس کے نزدیک قرآن کی تلاوت کی جائے،جہاں اس کی میت رکھی ہوئی ہے ،اگر رات ہے تو چراغ جلا یا جائے، اس کی موت کی مومنین کو خبر دی جائے، تاکہ وہ اس کے جنازے میں شرکت کریں، اس کے دفن میں جلدی کی جائے، مگر یہ کہ اس کی موت مشتبہ ہو یا اس میں کسی قسم کا شک ہو تو جلدی نہ کی جائے۔

سوال:      اگر اس کی موت مشتبہ ہو تو؟

جواب:      اس صورت میں تاخیر کرنا واجب ہے یہاں تک کہ اس کی موت کا یقین ہوجائے، جب تم کو یقین ہوجائے تو پھر اس کو غسل دینا واجب ہے، چاہے مرد ہویا عورت ،بڑا ہو یا چھوٹا۔

سوال:     اور اگر جنین ساقط ہوجائے تو؟

جواب:      جنین ساقط ہوجائے تو اگر تو وہ چار مہینے تمام کرچکا ہے (بلکہ اگرچار ماہ تمام نہ بھی کئے ہوں اور خلقت کامل ہوچکی ہو) لیکن اس پر نماز کا پڑھنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے۔

سوال:     بتائیے میت کو غسل کون دے گا؟

جواب:      مرد کو مرد غسل دے، اور عورت کو عورت غسل دے مگر یہ کہ میاں اور بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں، اسی طرح وہ بچہ جو سن تمیز کو پہنچ گیا ہے (چاہے لڑکا ہو یا لڑکی) ان کو بھی مرد یا عورت کوئی بھی غسل دے سکتا ہے اسی طرح محرم اور اس کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ اپنے غیر ہم جنس محرم کو غسل دے سکتا ہے، جب کہ ہم جنس نہ پایا جاتاہو۔

سوال:     میت کو غسل کتنے اور کس طرح دیئے جائیں گے؟

جواب:      تین غسل دیئے جائیں گے۔

اول   بیری کے پانی سے ۔

دوم   کافور کے پانی سے ۔    

سوم       خالص پانی سے

اس بنا پر غسل ترتیبی دے، اس طرح کہ پہلے سراور گردن دھوئے، پھر جسم کا داہنا حصہ، پھر جسم کابایاں حصہ دھوے۔

اور غسل میں جو پانی استعمال ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ پاک ہو،نجس نہ ہو، مباح ہو، غصبی نہ ہو، مطلق ہو، مضاف نہ ہو اور بیری اور کافور بھی مباح ہوں۔

سوال:     کیا میت کا لباس اثنائے غسل اتارا جائے گایا نہیں ؟

جواب:      لباس پر غسل دےسکتے ہیں مگر افضلیت اسی میں  ہے کہ کپڑوں کو اتار لیا جائے۔

سوال:     اور پانی مطلق کس طرح رہ سکتا ہے جب کہ کافور اور بیری کا ملانا اس میں واجب ہے۔؟

جواب:      بیری اور کافور کو اس قدر ملائے کہ پانی مضاف نہ ہو۔

 

نام کتاب   آسان مسائل (حصہ اول)   
فتاوی حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی سیستانی مدظلہ العالی   
ترتیب عبد الہادی محمد تقی الحکیم    
ترجمہ سید نیاز حیدر حسینی   
تصحیح ریاض حسین جعفری فاضل قم 
ناشر  مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران 
کمپوزنگ ابو محمد حیدری