• صارفین کی تعداد :
  • 2518
  • 9/29/2009
  • تاريخ :

کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

کپاس کا پهول

     سو گاؤں والوں کی مہربانی سے پٹواری نے اسے طلاق کے بدلے مکان دے دیا۔ اور یہ بھی صبر شکر کر کے بیٹھ گئی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تو اس کا نام اس نے حسن دین رکھا۔ محنت مزدوری کے کے سے پالتی پوستی رہی، مڈل تک پڑھایا بھی مگر اس کے بعد ہمت نہ رہی۔ تاجو کے حُسن کی وجہ سے اس پر ترس تو سب کو آتا تھا مگر پٹواری سے جُدا ہونے کے بعد وہ اپنی جوانی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بھلے آدمی نے حسن دین کو اعٰلی تعلیم دلانے کا لالچ دے کر تاجو سے عقد کرنے کا خواہش ظاہر کی تو تاجو نے اس کی سات پشتوں کو توم ڈالا اور حسن دین کلہاڑی لے کر اس خُدا ترس کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ حسن دین برگِ آوارہ پھرتا رہا۔ پھر جب اس کے عشق کرنے کا زمانہ آیا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کے بعد مائی تاجو کے چند برس اچھے گزرے۔ حسن دین حوالداری تک پہنچا۔ اس کے رشتے کی بھی بات ہوگئی مگر پھر دوسرے بڑی جنگ چھڑگئی، اور حسن دین اوہر بن غازی میں مارا گیا۔ تب مائی تاجو نے چکی پیسنی شروع کی۔ اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک دن چکی کے پاٹ پر سر رکھے بےہوش پائی گئی۔ اس روز جب وہ ہوش میں آئی تھی تو حکیم کے ہاتھ کو چکی کی ہتھی سمجھ کر گھُما دیا تھا۔

     اگر اس کے پڑوس میں چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں نہ ہوتی تو وہ اپنی بار بار کی بےہوشیوں سے کسی بےہوشی کے دوران کوچ کر جاتی۔ وہ راحتاں سے کہا کرتی تھی کہ۔ “ بیٹی اگر میرا حسن دین ہوتا تو میں تجھے تیری شادی پر سونے کا ست لڑا ہار دیتی۔ اسے خدا نے اپنے پاس بُلا لیا سو اب میں ہر وقت تیرے لیے دُعا کرتی ہوں کے تو جُگ جُگ جئیے اور شادی کے بعد بھی اسی طرح سُکھہ رہے جیسے اپنے باپ کے گھر سُکھی ہے“۔

  ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری رات تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کی شادی میں‌گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئے گی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راستاں کی ماں نے بس اتنا کہا۔ “ دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں“۔

  راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں میں شامل سمجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی۔ “ تو بی بی، کیا میں بھکارن ہوں؟“۔

  سونے کی بالیوں سے بھرے ہوئے کانوں والی بی بی کو بھی مائی تاجو کسی مسکین عورت کے منہ سے یہ بات سن کر تکلیف ہوئی۔ اس نے کہا۔ “ نہیں مائی، بھکارن کو خیر نہیں ہو، مگر محتاج تو ہو نہ“۔

 اور مائی کو کپکپی سی چھوٹ گئی۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ اب دوبارہ راحتاں کی ماں نے اسے پکارہ بھی مگر اس کے کانوں میں تو شاں شاں ہو رہی تھی۔ گھر آکر آنگن میں‌پڑی کھاٹ کر گِر پڑی اور اپنی موت کو یوں پکارتی رہی جیسے وہ دیوار سے ادھر بیٹھی ہوئی اس کی باتیں سن رہی ہو۔

     آدھی رات کو جب چاند زرد پڑ گیا تھا۔ دیوار پر سے راحتاں نے اسے پکارا۔

   ۔ “ مائی جاگ رہی ہو؟“۔

   ۔ “ میں سوتی کب ہوں بیٹی“۔ اس نے کہا۔

   ۔ “ ادھر آکر روٹی لو دیوار پر سے“۔ راحتاں بولی۔

   ۔ “ نہیں بیٹی راحتاں۔ نہیں لوں گی“۔ اس کی آواز بھر آنے لگی۔ “ آدمی زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ۔ تو میں کب تک زندہ رہوں گی۔ جبکہ میں جدھر جاتی ہوں میری قبر میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میں کیوں تمھارا اناج ضائع کروں بیٹی“۔

     راحتاں دیوار کے پاس کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ پھر پنجوں کے بل کھڑی ہوکر بڑی منت سے کہا۔ “ لے لو مائی، میرا خاطر سے لے لو“۔

مصنف : احمد ندیم قاسمی


متعلقہ تحریریں:

کفن

مٹی کا بھوجھ