• صارفین کی تعداد :
  • 3002
  • 8/23/2009
  • تاريخ :

رمضان المبارک ہمیں  ایثار و قربانی سے مشکلات کا مقابلہ کا سبق دیتا ہے

تسبیح

روزہ اگرچہ پہلے ادیان کے ماننے والوں پر بھی فرض رہا ہے لیکن اسلام نے امت مسلمہ پر جس انداز میں اس کی ادائیگی کو اپنے ارکان خمسہ کا حصہ بنایا ہے اس سے اس کے دائرہ کار اور اغراض و مقاصد میں اتنی وسعت آ گئی ہے کہ وہ پوری حیات انسانی کو اپنے احاطہ میں لیتے ہوئے مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ کے تحت ممنوع اور حرام قرار دی جانے والی اشیاء ہی سے دور نہ رہیں بلکہ زندگی کی ان تمناؤں اور خواہشات نفسانیہ سے بھی ایک معین نظام الاوقات میں اجتناب کریں جو بجائے خود جائز اور درست ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو رمضان المبارک ایثار و قربانی اور مفاہمت کا درس دینے والا ایک ایسا ریفریشر کورس ہے جس کی رضا و رغبت اور مسرت و انبساط سے تکمیل کرنے والا تکبر و غرور اور ان کے تمام لاحقوں سے پاک صاف ہو کر اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے کسی قول و فعل اور حرکت وسکون سے کوئی اشارہ بھی ایسا نہ ملے جس سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی مترشح ہو۔

نفس پر قابو پانا اور ایثار و قربانی کی اس منزل تک پہنچنا ایک مشکل اور کٹھن کام ہے کیونکہ شیطان ہر قدم پر انسان کو بہکاتا اور اسے اطاعت خداوندی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے ہٹا کر اپنی اتباع کرنے کی ترغیب دیتا ہے

 لیکن جو لوگ خلوص نیت اور ایمان کے ساتھ اپنے آپ کو احکام الٰہی کی پیروی کے لئے وقف کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ شیطان ان پر قابو پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ اوائل اسلام میں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی شکل میں نبوت کا آفتاب اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ چمک رہا تھا اس لئے احکام الٰہی کی دانستہ نافرمانی کی کوئی سوچ کسی مسلمان کے حاشیہ خیال تک میں نہ آتی تھی اور اگر ان میں سے کسی کے ذہن میں کوئی ادنیٰ سا خلجان پیدا ہوتا تھا تو وہ فوراً دربار نبوی میں پہنچ کر اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی اصلاح کر لیتا تھا اور یوں اس کے قول و فعل میں کوئی تفاوت اورغیریت جنم نہیں لیتی تھی اور وہ کردار و عمل کا ایک ایسا مینارہ نور بن جاتا تھا کہ اس کی روشنی بہت سے دوسرے دلوں کو ایمان کی حرارت سے فروزاں کرنے کا موجب بن جاتی تھی۔ اسی سے زندگی، محبت، معرفت اور نگاہ کی دولت سے آراستہ وہ عظیم الشان کارواں تشکیل پایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف جزیرہ نمائے عرب کو کفر و شرک کی آلودگیوں سے پاک کر کے اسے ایک ایسی امت واحدہ میں تبدیل کر دیا جس نے چند ہی برسوں میں نہ صرف اس بے آب و گیاہ خطے کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیا بلکہ معلوم دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر بھی اپنی سطوت و شوکت کے ایسے لازوال نقش قائم کر دیئے کہ آج چودہ سو برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی ہیبت اور دبدبہ ابھی تک ماند نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ محض اس وجہ سے ظہور پذیر ہوا کہ پاکبازوں کی اس جماعت کا ہر فرد ایثار و قربانی کے جذبے سے اس طرح سرشار تھا کہ اگر اس کے کسی ایک فرد کو کانٹا بھی چبھ جاتا تھا تو دوسرا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف کو دور نہیں کر لیتا تھا ۔

   حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہونے والی ایک جنگ کا یہ واقعہ کس کو یاد نہیں کہ جب ہر طرف سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہونے لگیں تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی تشنگی کو اپنے مسلمان بھائی کی پیاس بجھانے پر اس طرح ترجیح دی کہ اپنی جان ایک دوسرے پر قربان کر دی۔

 روزہ دوسروں کے دکھ درد اور اذیت و کلفت کو اسی طریقے سے محسوس کرنے کا نام ہے ورنہ محض بھوک پیاس کو برداشت کرنا رمضان المبارک کا اصل مقصود نہیں ہے ۔ روزہ ریاضت بدن کے ذریعے دوسروں کی بھوک کا احساس پیدا کرنے کا کام بھی کرتا ہے اور زکوٰة کے ذریعے اپنے اموال سے خلق خدا کے دکھوں کو دور کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔ روزے کی حالت میں اگر کوئی دل آزاری کی بات کہہ دے تو حکم یہ ہے کہ جواب میں صرف کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اسلام کی ان تعلیمات عالیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو روزہ بدنی و مالی ایثار و قربانی کے علاوہ تطہیر اخلاق کے لئے مفاہمت کا سبق دینے والی ایک ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت عبادت ہے جو انسان کو زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کرنے اور تلخ تر حالات کا پامردی سے سامنا کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اگر رمضان المبارک کے ایام میں حاصل ہونے والے اس سبق کو ہم اپنی انفرادی و قومی زندگی میں مشعل راہ بنائیں تو اس سے ہمیں بے شمار مصائب و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔ اور یہ راستہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔

  لیکن ہم نے نہ تو عالم اسلام کی سطح پر اس سے فائدہ اٹھا کر امت مسلمہ کو دنیا بھر میں عزت و توقیر کی اس منزل تک پہنچانے کی جدوجہد کی ہے جو ڈیڑھ ارب سے زائد افرادی قوت رکھنے والی اور تیل کی دولت کے 70 فیصد وسائل سے مالامال اس قوم کا فطری حق ہے اور نہ وطن عزیز کی حد تک اس کو عملی شکل دینے کے لئے کوئی موثر کوشش کی ہے اور آج حالت یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ و یورپ کی طاغوتی قوتیں اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ہمیں ہڑپ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو دوسری طرف ہم خود لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کی دلدل میں اس طرح دھنسے ہوئے ہیں کہ ہمارے دشمنوں نے اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دے رکھا ہے اور ہمارے مقتدر طبقات کا یہ عالم ہے کہ وہ قوم و ملک کو درپیش مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری، معاشی ناہمواری، صنعتی بدحالی اور امن عامہ کی بدتر صورتحال ایسے سنگین چیلنجوں سے نمٹنے کی بجائے اپنی توانائیوں کو چھوٹے چھوٹے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معاشرے کے مستحقین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اور موثر قانون سازی کریں جو کئی عشروں سے نظر انداز کر دیئے جانے کی وجہ سے اب اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ان کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار رمضان المبارک کے احکام میں شامل ایثار و قربانی کی اس روح کو سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کے لئے قربانی دینے کی اپنی ذات سے ابتدا کریں تو وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکیں گے بلکہ ان کے دنیاوی عزت و احترام میں بھی اضافہ ہو گا ۔ آخر میں ہم حکام اور عوام سب کی خدمت میں گزارش کریں گے کہ زبانی دعووں اور نعروں کی نسبت کردار کی آواز کہیں زیادہ بلند ہوتی ہے اس مہینے کی مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیوں میں حقیقی انقلاب لانے کا عزم کریں کہ اسی سے یہ اندازہ ہو گا کہ انہوں نے اس سے کیا سیکھا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


متعلقہ تحریریں :

اجتہاد کے سلسلہ ميں بعض اصحاب کا موقف

انسان کي فطرت جستجو و تحقیق