• صارفین کی تعداد :
  • 4731
  • 8/21/2011
  • تاريخ :

شريک حيات کے حقوق ( حصّہ دوّم )

شادی بیاه

      اللہ تعالي فرماتا ہے :

فانکحوھن باذن اھلھن وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غير مسافحات ”‌

پس مالکوں کي اجازت سے لونڈيوں سے نکاح کرو اوران کا مہرحسن سلوک سے انہيں دے دوان سے جو عفت کے ساتھ تمہاري پابند رہيں کھلے عام زنا نہ کريں-

      اس اور ديگرآيات کي روشني ميں فقہا کے نزديک باکرہ لڑکي کے لئے سرپرست کي اجازت شرط ہے تاکہ عورت کا شوہرکو اختيارکرنے کاحق محفوظ رہے اوريہ اجازت اسکي ہتک حرمت کے لئے نہيں ہے بلکہ يہ ايک احتياطي تدبيرہے تاکہ لڑکي کسي شخص سے نفسياتي طورپرمتاثرہوکرياجذباتي لگاؤکي وجہ سے شادي کرنے ميں جلدي نہ کرے- اجازت کے بعد عورت کا دوسرا حق مہر ہے تا کہ اسے يہ احساس رہے کہ وہ مطلوبہ ہے نہ طالبہ يہ احساس اسے اس حيا سے بھي حاصل رہتا ہے جو اس کي جبلت ميں وديعت کي گئي ہے اوربيوي کومہردينے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ شوہرکي غلام بن گئي ہے بلکہ اللہ تعالي فرماتا ہے :

  وآتوالنساء صدقاتھن نحلة-

 ”‌اورعورتوں کوان کے مہرخوشي خوشي ديدو-

بيوي ايسي شريک حيات ہے جس نے مرد کے ساتھ حقوق وفرائض پرمبني مشترک زندگي کاعہد کررکھاہے ولھن مثل الذي عليھن بالمعروف…) اورعورتوں کے لئے شريعت کے مطابق اس کي مثل حق ہے جوان پرہے --

 عورت کے حقوق کے سلسلے ميں قرآن کے اس واضح موقف کے باوجود بعض دشمنان قرآن اس بارے ميں قرآن پر بعض ناروا اتہامات لگاتے ہيں-

 مثال کے طورپرکہتے ہيں قرآن نے عورت پرپردہ واجب کرکے اس کي آزادي کو محدود کردياہے، گھرکي سرداري مرد کے ہاتھ ميں دے دي ہے اوروراثت ميں مرد کوعورت سے دوگناحصہ ديا ہے يہ لوگ جوحقوق زن کے سلسلے ميں مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہيں درحقيقت قرآن کے آسماني کتاب اورشريعت اسلاميہ کا منبع ہونے پرطعن کرتے ہيں اوراشاروں ميں کہتے ہيں يہ کتاب مقدس فرسودہ ہوچکي ہے اورترقي يافتہ دورکے تقاضے پورے نہيں کرتي - ليکن تھوڑا ساغوروفکر کريں تويہ اعتراضات تارعنکبوت سے بھي زيادہ کمزور نظرآنے لگيں گے-

  ليکن اس کے لئے قرآن، اس کے طرزکلام اورعترت طاہرہ کي طرف رجوع کرنا ضروري ہے کہ جوقرآن کے حقيقي ترجمان ہيں-

آپ ديکھيں گے کہ قرآن نے اس وقت عورت کوانساني حق دياجب اسے بہت ہي پست اورگھٹيا سمجھا جاتا تھا اوراس ميں کسي وشک شبہ کي گنجائش نہيں ہے جب کہ اديان سماويہ کے علاوہ ديگراديان عورت کوايک پست مادہ سے پيدا ہونے والي مخلوق سمجھتے تھے اورمرد کو اعلي عنصرسے پيدا ہونے والا، بعض لوگ تو يہاں تک کہنے لگے عورت پليدگي سے پيدا ہوئي ہے اوراس کا خالق، خالق شرہے اوردورجاہليت ميں عرب عورت کوجانورسمجھتے تھے اوراسے انساني صورت ميں اس لئے پيدا کيا گيا تاکہ مرد کي خدمت کرسکے اوراس کي جنسي خواہشات کو پورا کرسکے-

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

عورت کا مقام و مرتبہ ( حصّہ چهارم)

عورت کا مقام و مرتبہ (تيسرا حصّہ)

عورت کا مقام و مرتبہ (دوسرا حصّہ)

عورت کا مقام و مرتبہ

خواتين پرمغرب کا ظلم و ستم اور اسلام کي خدمات ( دوسرا حصّہ)