• صارفین کی تعداد :
  • 3332
  • 8/16/2009
  • تاريخ :

ہندی اردو تنازعات اور معروضی حقائق کی روشنی میں (حصّہ دوّم)

اردو اور ہندی کے حروف تہجی

اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہوگا کہ شمالی ہندوستان کے جن علاقوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان رائج تھی، انھیں علاقوں میں تاریخ کے ایک مخصوص دور میں دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زمانۂ حال کی ہندی جسے ’’ناگری ہندی‘‘ کہتے ہیں، کا ارتقا عمل میں آیا۔ اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیںہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اور ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم نے اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔

اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اترپردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر ۱۱۹۳ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتاہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کرکے دہلی میں سکونت اختیار کرلیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کرکے دہلی پہنچے تھے۔ شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو۱، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہوگئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہوناشروع ہوئے جس سے اس میں ’نکھار‘ پیداہوگیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔

کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو ’’ہندی‘‘، ’’ہندوی‘‘ اور ’’ریختہ‘‘ کہاگیا اور اسی کو بعد میں ’’زبانِ اردوئے معلیٰ‘‘، ’’زبانِ اردو‘‘ اور بالآخر ’’اردو‘‘ کے نام سے موسوم کیاگیا۔

اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہچائی جو کھڑی بولی کی طرح یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر  مرزا خلیل احمد بیگ

https://samt.ifastnet.com


متعلقہ تحریریں:

دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ سوّم )

اردو زبان کے  مختلف نام اور مراحل

اردو زبان کا نام اور مجمل تاریخ

اردو ہے جس کا نام