لکھتا ہوں کہ شاید کوئی افکار بدل دے
لکھتا ہوں کہ شاید کوئی افکار بدل دے |
زندہ ہوں کہ شاید کوئی انکار بدل دے |
حالات بدلنے میں جو دن رات لگا ہے |
وہ آ کہ مری سوچ کے آثار بدل دے |
کہتا ہے کہ میرا ہے مگر ساتھ کسی کے |
پیار بدلنے سے تو اقرار بدل دے |
سر مجھ سے وہ مانگے وہ مری جاں تو مانگے |
پر مجھ سے وہ کہتا ہے کہ تو یار بدل دے |
وہ کام جفاؤں کے کہاں چھوڑ سکے گا |
شاید کہ کسی روز وہ اوزار بدل دے |
خاموش کھڑا ہوں کہ سبھی چیخ رہے ہیں |
چیخا تھا کہ شاید کوئی اوتار بدل دے |
ہے آخری تنبیہہ تجھے اہل صفا کی ! |
اے شیخ تو اس بار سر دار بدل دے |
شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان
کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
حوس پرست ہوں اتنا کہ سانس لیتا ہوں
رات بھر اکیلا تھا اور دن نکلتے ہی