• صارفین کی تعداد :
  • 5001
  • 3/10/2009
  • تاريخ :

حیض پر گفتگو

مسلمان لڑکی

آج میرے والد محترم گفتگو کے کمرے میں آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، ان کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ تھی میں نے اندازہ لگایا کہ کوئی خلاف معلوم بات ہے چنانچہ وہ یہ کہتے ہوئے بیٹھے:

آج حیض کے سلسلہ میں تم سے گفتگو کروں گا۔

میں اس سے پہلے نہ جانتا تھا کہ حیض کیا ہے اگر میں نے اس سے پہلے اس لفظ کو سنا بھی تھا تو اس کے بارے میں کچھ جاننا فضول سمجھتا تھا کیونکہ میں نے اس لفظ کے متعلق کچھ عورتوں سے بہ حالت شرم سنا تھا گویا اس کلمہ میں ہی شرم محسوس ہوئی اور جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ آج حیض کے بارے میں گفتگو ہے تو میں اتنا شرمسار ہوا کہ میری شعوری کیفیت بھی شرمندہ سی ہو گئی۔

میں نے اپنے دل میں کہا کیوں تو اتنا شرمندہ ہو رہا ہے اور اس سوال کو بار بار دہرایا کہ کیوں تو شرمندہ ہو رہا ہے۔

میں نے غور کیا کہ آخر شرم کی کیا بات ہے اور کیوں؟ اگر حیض ایک ایسی چیز ہوتی کہ جس پر خجالت وشرم صحیح ہوتی تو پھر میرے والد اس بارے میں آج مجھ سے گفتگو کیوں کرتے؟ پھر کیا ایک ایسی شرم والی چیز پر مجھ سے گفتگو کیوں کرتے ؟ پھر کیا ایک ایسی شرم والی چیز پر مجھ سے گفتگو کرنا اچھی بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی نے بھی بات نہ کی ۔

اور ایک دم مجھے یاد آیا کہ ہماری اس گفتگو کا موضوع احکام شرعیہ ہیں پس لازمی طور پر حیض کو بھی فقہ اسلامی کا ایک گفتگو کا موضوع ہونا چاہیے۔

اور جب ایسا ہو تو پھر خجالت کے کیا معنی ہیں ایسی چیز کے بارے میں جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں جس کا بیان ہو اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے احکام میں اس کو اپنے اصحاب سے بیان کیا ہو، پھر اس کے بعد شرمند گی یا خجالت کے کیا معنی ہیں؟ اس چیز کے بارے میں کہ جس کے احکام کا اس کے مطابق یاد کرنا واجب ہے، میں اس سوچ میں غرق تھا کہ میرے والد کی آواز نے مجھے یہ کہتے ہوئے چونکایا :

حیض کا سبب

خون حیض وہ خون ہے، جو عورتوں کو نو برس کی عمر کے بعد پچاس ساٹھ سال کی عمر تک آ سکتا ہے اور یہ عورتوں کو تقریباً ہر مہینہ میں معینہ مدت میں اور آتا ہے خون حیض اکثر سیاہ یا سرخ اور گرم ہوتا ہے جس میں سوزش ہوتی ہے اور اچھل کر نکلتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے۔

سوال:     جن عورت کو حیض آتا ہے کیا ان کی عمر معین ہوتی ہیں؟

جواب:      ہاں جب وہ قمری حساب سے نوسال پورے کرلیتی ہیں اور قمری حساب سے ساٹھ سال تک نہ پہنچیں کیونکہ یہ ساٹھ سال کی عمر  میں یائسہ کہلاتی ہے۔

سوال:     تو کیا حیض والی عورتیں ۹ اور ۶۰ سال کے درمیان ہوتی ہیں۔

جواب:      ہاں، ہر وہ لڑکی جو نو سال سے پہلے خون دیکھے، چاہے ایک ہی لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو، وہ خون حیض نہیں ہوتا اور ہر وہ خون جو عورتوں کو ۶۰ سال کے بعد آئے تو اس کو بھی خون حیض نہیں سمجھا جائے گا۔

سوال:     اباجان یہ بتائیے، خون حیض کتنے دن تک جاری رہتا ہے؟

جواب:      کم ازکم خون حیض تین دن کے درمیان میں دو راتیں، اور زیادہ سے زیادہ دس دن جاری رہتا ہے۔

سوال:     اور اگر تین روزسے کم آئے یا درمیان میں منقطع ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:  تو یہ خون حیض نہیں ہے۔

سوال:     اور اگر دس روز سے زیادہ ہوجائے؟

جواب:      جواب: حیض دس روزسے زیادہ نہیں ہوتا۔

سوال:    اوراگر حیض کی مدت تمام ہوجائے اور عورت پاک ہوجائے، پھر سات روزبعد دوبارہ خون آجائے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:     یہ خون، خون حیض نہیں ہے کیونکہ دو حیضوں کے درمیان مدت کبھی دس روز سے کم نہیں ہو تی۔

سوال:    عورت اپنے آپ کو حائض کب شمار کرے گی؟

جواب:   جب خون اس کی عادت کے زمانہ میں آئے، یازمانہ عادت سے کچھ وقت پہلے آئے جیسے ایک روزیا دو روز پہلے خون آئے تو عورت اپنے آپ کو حائض سمجھے گی ۔

سوال:     عورت صاحب عادت وقتیہ کس طرح ہوگی ؟

جواب:     جب خون حیض دو مربتہ دو مہنیہ برابر کسی وقت معین میں آئے ، تو وہ عورت صاحب عادت وقتیہ ہوگی۔

جواب:   جب عورت کی کوئی خاص مدت اور وقت نہ ہو، جیسے وہ لڑکی کہ جس کو پہلی مرتبہ خون آیا ہو، یا وہ مضطربہ کہ جس کی کوئی عادت معین نہ ہوتو وہ اپنے آپ کو کب سے حائض شمار کرے گی؟

جب خون میں حیض کی تمام صفات پائی جاتی ہوں، جیسے سرخی یا سیاہی، گرمی اور اس کی سوزش اور تیزی کے ساتھ اس کا نکلنا ۔

جب خون  دیکھے تو اس کو اطمینان ہو کہ یہ خون تین دن یا زیادہ تک جاری رہے گا۔

سوال:     مذکورہ بالا امور کی بنا پر عورت نے اپنے کو حائض شمار کیا، اوراس نے نماز نہ پڑھی لیکن خون تین روزسے پہلے ہی بند ہوگیا اور وہ سمجھ گئی کہ یہ خون حیض نہیں ہے تو اب وہ کیا کرے گی؟

جواب:      اس مدت میں جو نماز چھوٹی ہے اس کی قضا بجا لائے۔

سوال:     اگر خون دس روز سے کم یا دس روز سے زیادہ اس کی عادت کے دنوں سے تجاوز کرجائے تو اس کا وظیفہ شرعی کیا ہوگا؟

جواب:      وہ اس مدت میں اپنے آپ کو حائض شمار کرے گی اگرچہ اس خون میں حیض کی کچھ صفات نہ بھی پائی جاتی ہوں ۔

سوال:     اور جب خون دس دن سے زیادہ تجاوز کرجائے اور اس کے وقت اور عدددنوں معین ہوں تو؟

جواب:      تو وہ صرف اپنی عادت کے مخصوص ایام میں اپنے آپ کو حائض شمار کرے گی عادت سے پہلے اور بعد کے ایام کا حساب حیض میں نہیں ہوگا۔

سوال:     عادت والی عورت جب اپنی عادت کے ایام میں خون نہ دیکھے، اور اس کی عادت کے وقت کے بعد خون آئے اور وہ دس دن سے زیادہ ہوجائے، اور اس طرح خون میں کچھ حیض کی صفات پائی جائیں اور خون میں کچھ حیض کے صفات نہ پائی جاتی ہوں تو وہ ان دونوں میں سے کس کو حیض قراردے گی۔

جواب:       جو ان میں پہلا خون ہے اس کو حیض قرار دے گی لیکن اس میں اپنی پچھلی عادت کی مدت کی  رعایت کرے گی پس جن ایام میں حیض کی صفات وعلامات پائی جاتی ہیں وہ اگر عادت سے کم ہیں تو اپنی ان عادت کے دنوں کو ان ایام سے پورا کرے گی کہ جن دنوں میں اس کے خون میں حیض کی صفات نہ پائی جاتی تھیں اور اگر حیض کی صفات اس کی عادت کے دنوں سے زیادہ پائی جاتی ہوں تو پھروہ اپنی مخصوص عادت کے مطابق حیض قراردے گی۔

سوال:     جب خون دس روز سے زیادہ تجاوز کرجائے اور وہ اصلاً صاحب عادت بھی نہ ہو جیسے :مبتدئہ۔ مضطربہ اور متحیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں وہ کیسے خون حیض کو دوسرے خون سے تمیز کرے گی؟

جواب:      مختلف علامات کی بناپر پس اگر حیض کی علامت والے خون کی مقدار تین روز اور دس روز کے درمیان پائی جاتی ہوتو اسی کو وہ حیض قرار دے گی اور اس کے علاوہ خون کو استحاضہ قرار دے گی اس استحاضہ کے بارے میں آئندہ ہونے والی گفتگو میں، میں آپ کو بتاؤں گا۔

سوال:     اگر عورت خون حیض کے تمام ہوجانے میں شک کرے؟یعنی شک کرے کہ وہ پاک ہو گئی یا ابھی حیض باقی ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے گی؟

جواب:      اس پر تحقیق کرنا واجب ہے۔

سوال:     وہ کس طرح تحقیق کرے گی؟

جواب:      وہ تھوڑی سی روئی اپنی شرمگاہ میں داخل کرے، اور کچھ دیر صبر کرے، اس کے بعد نکالے، اگر وہ سفید نکلے تو وہ پاک ہوگئی، اب اس پر واجب ہے کہ غسل کرکے اپنی عبادت کو بجا لائے مثلاًنماز، روزہ وغیرہ، اور اگر خون سے بھری ہوئی ہو یا رنگین نکلے، تو پھر وہ اپنے آپکو حائض شمار کرے۔

سوال:     اور جب عورت کو معلوم ہوجائے کہ وہ حائض ہے؟تو اس کا وظیفہ کیا ہوگا؟اور کس چیز کو ترک کرنا اس کے لیے ضروری ہے؟

جواب:      حیض کی حالت میں عورت کے لیے ذیل کے احکام ہیں:

(۱)   اس کے لیے نماز واجب اور نماز مستحب کا پڑھنا صحیح نہیں ہے

(۲)   حیض کے دنوں میں جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا نہیں ہے۔

(۳)   روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔

(۴)   حیض کی حالت میں ماہ رمضان میں جو روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا کرے؟

(اور اسی طرح وقت معین میں نذر کیا ہوا روزہ کی قضا بجالائے۔“

(۵)   ایسی حالت میں حج کا طواف کرنا چاہے واجب ہویا مستحب صحیح نہیں ہے۔

(۶)   حیض کی حالت میں عورت کو طلاق دینا صحیح نہیں ہے، مگر چند جگہوں پر چھوٹ ہے۔

(۷)   خون کے دنوں میں اس سے مقاربت کرنا حرام ہے؟البتہ شرمگاہ کو پاک کرنے کے بعد ۔

(۸)   اس عورت پر ہر وہ چیز حرام ہے جو مجنب پر حرام ہے(جنابت کی بحث میں دیکھئے)

(۹)   جب حیض کا زمانہ ختم ہوجائے تو اس پر نماز کےلیے غسل کرنا واجب ہے۔

غسل کی آنے والی بحث میں، آپ کو بتاؤں گا کہ غسل کس طرح کرنا چاہیے۔

 

نام کتاب:     آسان مسائل (حصہ اول)
فتاوی:   حضرت آیت اللہ العظمی' سید علی سیستانی مدظلہ العالی
ترتیب:     عبد الہادی محمد تقی الحکیم
ترجمہ:        سید نیاز حیدر حسینی
تصحیح: ریاض حسین جعفری فاضل قم
ناشر:     مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران
کمپوزنگ:  ابو محمد حیدری