• صارفین کی تعداد :
  • 2716
  • 1/21/2009
  • تاريخ :

کفن

جھونپڑا

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں، ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا درد زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔

گھسو نے کہا ”معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سار ا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔“

مادھو دردناک لہجے میں بولا ”مرنا ہی ہے تو جلدی مرکیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔“

”تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتن جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی۔“

”تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا۔“

 

چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہوتو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا، اور جب تک وہ پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر ما رے مارے پھرتے جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشتکاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کرلینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکل کے لئے ضبط نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی۔ عجیب زندگی تھی ان کی۔

 

گھرمیں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے گالیاں بھی کھاتے مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے۔ یا دن پانچ ایکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔ گھسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے۔ گھسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا، مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کرکے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کرلیتی تھی۔ اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے درزہ میں مر رہی تھی اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مرجائے تو آرام سے سوئیں۔

گھسو نے آلو نکال کرچھیلتے ہوئے کہا ”جا دیکھ تو کیا حالت ہے“ اس کی چڑیل کا پھنساؤ ہو گا اور کیا، یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے“۔

   

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں کا بڑاحصہ صاف کردے گا، بولا ”مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔“

”ڈر کس بات کا ہے؟ میں تو یہاں ہوں ہی“

”تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔“

”میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں ، اور پھر مجھ سے لجائے گی کہ نہیں، کبھی اسکا منہ نہیں دیکھا، آج اسکا اگھرا ہوا بدن دیکھوں۔ اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے گی۔“

”میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں۔“

”سب کچھ آجائے گا۔ بھگوان بچہ دیں تو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب بلا کردیں گے۔ میرے تو لڑکے ہوئے ، گھرمیں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل گیا۔“

 

جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے یہ جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے۔ اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔

 

دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔

 

گھسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی، وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا ”وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں، سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو۔ اور جتنا چاہو کھاؤ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں نہیں چاہیے مگر وہ ہیں دیے جاتے ہیں، اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔“

 

مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا ”اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔“

”اب کوئی کیا کھلا ئے گا؟“ وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کھبایت سوجھتی ہے۔ سادی بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کبھایت سوجھتی ہے۔“

”تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔“

”وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کی دیا ۔ ہاں وہ روپے ہمارے  ہاتھ نہ آئیں گے اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اس طرح بیٹھے پئیں گے اور کفن تیسری بار لے گا۔“

 

جوں جوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی، میخانے کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی۔ کوئی گاتا تھا، کوئی بہکتا تھا، کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا، کوئی اپنے دوست کے منہ سے ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا، ہوا میں نشہ۔ کتنے تو چلو میں ہی الو ہوجاتے ہیں۔ یہاں آتے تھے تو صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے ۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ہیں یا زندہ در گور ہیں۔

اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کے چسکیاں لے رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنی خوش نصیب ہیں دونوں، پوری بوتل بیچ میں ہے۔

 

کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوریوں کا تیل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا، جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ”پینے“ کے غرور اور مسرت اور ولولہ کا ، اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔ گھسو نے کہا ”لے جا کھوب کھا اور آشیر باد دے“

جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی مگر تیرا اشیر باد اسے جرور پہنچ جائے گا روئیں روئیں سے اشیر باد دے بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔“

مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ”وہ بیکنٹھ میں جائے گی۔ دادا بیکنٹھ کی رانی بنے گی۔“ گھسوکھڑا ہو گیا اور جیسے مسرت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا۔ ”ہاں بیٹا بیکنٹھ میں نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لو گ جائیں گے، جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کے دھونے کے لئے گنگا میں جاتے ہیں اور مندروں میں جل چڑھاتے ہیں۔“

 

یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا....نشہ کی خاصیت سے یاس اور غم کا دورہ ہوا۔ مادھو بولا ”مگر داد بیچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنی دکھ جھیل کر۔“ وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا۔

گھسو نے سمجھایا ”کیوں روتا ہے بیٹا! کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا کے موہ کے بندھن توڑ دئیے۔“

اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگے.... ٹھگنی کیوں نیناں جھمکا دے ٹھگنی۔

سارا میخانہ محو تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش مخمور محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے۔ پھر دونوں ناچنے لگے ۔ اچھلے بھی، کودے بھی، گرے بھی ، مٹکے بھی، بھاؤ بھی بتائے اور آخر نشے سے بد مست ہوکر وہیں گرپڑے۔

                                                                                                                                                                           تحریر:    منشی پریم چند


متعلقہ تحریریں:

 بڈھا

دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے