• صارفین کی تعداد :
  • 6016
  • 10/19/2008
  • تاريخ :

آیۃ اللہ العظمی سید محمد حسین فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرویو

آیۃ اللہ العظمی سید محمد حسین فضل اللہ دام ظلہ کا انٹرویو

  موضوع : دین کے اجتماعی اور حکومتی پہلو

سوال : ہمیں یہ بتائيں کہ اجتماعی امور میں دین کس حد تک دخیل ہے اور کیا دین میں اجتماعی امور کی تفصیل ملتی ہے یا صرف عام اقدار بیان کی گئی ہیں ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ :انسان کی ھدایت کے لے دین نے جو احکام بیان کے ہیں ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے جتنے انبیاء کو بھیجا اور جتنی کتابیں نازل فرمائيں ان میں ایک بنیادی ھدف انسان کو عدل و قسط کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ روانہ کیا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو بھی بھیجا ہے تاکہ لوگ عدل وانصاف کریں ،یہاں پر لفظ عدل کا اطلاق انسان کے تمام روابط  پر ہو گا یعنی انسان کے انسان کے ساتھ ،خدا کے ساتھ اور عالم ھستی کے ساتھ اس کے روابط پر ہو گا ،عدل کا مفہوم یہ ہے کہ حق صاحب حق کو دیا جاے ،انسان پر خدا کا حق ہے خود انسانوں کا حق ہے اسی طرح ماحول کا حق ہے جس میں وہ رھتا ہے انسان پر ان تمام حقوق کی پابندی کرنا ضروری ہے بنابریں عدل کا کلی مفھوم انسان کی زندگی کے تمام شعبوں پر حاکم ہے ،دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سنت رسول اسلام(ص) اور ائمۃ معصومیں علیھم السلام کی سیرت میں جو کہ درحقیقت رسول اسلام  ہی کی سنت کا تسلسل ہے عدل کے بعض مصادیق ذکر کے گے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ شارع نے بہت سی جزئیات بھی بیان کی ہیں مثال کے طور پر میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق اور انسانوں کے آ پس میں حقوق ،اس کے علاوہ ایسی حدیثیں بھی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے وہ تمام امور بیان فرما دیے ہیں جن کی ضرورت انسان کو ہے یہاں تک کہ سطحی زخم کا تاوان بھی ظاہر ہے اللہ نے شریعت اس وجھ سے بھیجی ہے کہ انسان اپنی زندگي کے تمام شعبوں میں اس کی پیروی کرے اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے شریعت کے دائرے میں انسان کے لے اختیاری عمل کی گنجائش نہیں رکھی ہے بلکہ ایسے بہت سے کلی مسائل ہیں جن میں جزئیات کی تشخیص انسانی عقل پر چھوڑی گئی ہے ،یہ بات واضح ہے کہ دین نے بہت سے احکام کو جنہیں احکام ثانوی کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اور عقل ان کا ادراک کرتی ہے اور ان پر عمل کیا جا سکتا ہے ایسے احکام کے استنباط اور انہیں لاگو کرنے کی ذمہ داری عقل کے سپرد کی گئی ہے مثلا صدق واجب ہے اور کذب حرام ہے یہ ایک حکم کلی ہے لیکن اگر کوئي موضوع میں اقتضاء مصلحت کذب ہواور امر دائر ہو صدق کے موجودہ فساد میں اور مصلحت کذب میں تو عقل بے شک مصلحت کذب کا ساتھ دے گي اسی طرح اگر سچ کہنا (صدق) ظالم کے ہاتھوں کسی مظلوم و بے گناہ انسان کی گرفتاری اور قتل پر منتج ہوتو عقل کے حکم کی بنا پر کہ جسے شریعت کی تا‎ئید بھی حاصل ہے حرام ہے کیونکہ عقل ادرونی رسول اور انسان کے لے حجت خدا ہے ۔

دوسرے موارد بھی ہیں جن میں عقل کا حکم فیصلہ کن ہے اصول فقہ کا ایک قاعدہ ہے "قاعدہ تزاحم " یہ قاعدہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب امر دائر ہو مصلحت اھم و مفسدہ مھم کے درمیان ایسی صورتحال میں عقل مصلحت اھم کا حکم جاری کرتی ہے بنابریں اجتماعی امور میں دین کے بیان کے ہوے احکام جمود و ٹہراو کا باعث نہیں بنتے اور نہ انسانی عقل وفھم کو نظرانداز کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے بتایا بہت سے دینی احکام ثانوی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ان کی تشخیص انسانی عقل کے ذمہ کردی گئی ہے ۔

 سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دین بندے اور خدا کے رابطے سے عبارت ہے اور انسانی زندگي سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ : ان لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے دین کو مغربی لوگوں کی باتوں اور کتابوں سے حاصل کیا ہے جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ دین کا دائرہ تنگ یا وسیع ہونا چاہیے تو ہمیں اس دین کے منابع کا جائزہ لینا پڑے گا ،جب ہم دین اسلام کے منابع کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ کتاب و سنت ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس دین نے انسان پر خدا کے انسان کے ،حاکم پر محکوم کے محکوم پر حاکم کے یہاں تک کے ماحول کے حقوق کو بھی بیان کیا ہے ،اسی طرح انسان کے اجتماعی و فردی اور عام و خاص حقوق کو تفصیل سے بیان کیا ہے ،شرعی احکام میں زندگي کے جزئي ترین مسائل کو صاف صاف بیان کیا گیا ہے ۔اگر یہاں پر کوئي یہ کہے کہ یہ ساری چیزیں فقہا کے اجتہاد کی وجھ سے ہیں اور اجتہاد وحی منزل نہیں ہے جس کی اتباع واجب ہو؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ مجتھدین کا اجتہاد ذاتی نظریات نہیں ہیں اور نہ مجتھدین نے ان احکام کو گھڑا ہے بلکہ انہیں کتاب و سنت سے حاصل کیا ہے ہم بھی یہ دعوی نہیں کرتے کہ مجتھدین اپنے اجتھاد میں معصوم ہیں بلکہ ہم مجتھدین سے بحث بھی کرسکتے ہیں اور دلیل طلب کرسکتے ہیں اور اگر انہوں نے کہیں خطا کی ہو تو اس کی تصحیح کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہمارا استنباط ان سے الگ ہو ،میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ کسی مسئلہ میں اگر علماء نے اجماع کا حکم دیا ہو اور ہم یہ احتمال دیں کہ یہ اجماع خاص اصولی رجحان یا طرزتفکر کا نتیجہ  ہے اور ہم نے اس بات پر دلیل قائم کرلی ہے کہ یہ اجماع غلط ہے تو اس اجماعی حکم سے ہاتھ کھینچ لینا چاھیے۔

وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ دین صرف عبادات اور خدا کے ساتھ انسان کے فردی رابطے میں محدود ہے ،ان کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ انہوں نے دین اسلام کو سمجھا نہیں ہے اور نہ اس کا مطالعہ کیا ہے اور نہ انہیں حضرت موسی (ع) کے دین اور کتاب تورات سے کوئي واقفیت ہے ،تورات ایسی کتاب تھی جس میں خدا نے اجتماعی زندگي کے احکام و قوانین بیان کے تھے لیکن انجیل عھد جدید میں اجتماعی روابط کی تفصیل نہیں ملتی کیونکہ اس زمانے میں عیسائی بھی اجتماعی مسائل میں تورات کی پیروی کرتے تھے ،ہم ان لوگوں سے کہيں گے کہ دین اسلام کے منابع کا جائزہ لے کر یہ دیکھا جاے کہ کیا ان کا مدعا اسلام کے بارے میں صحیح ہے ؟ہم اپنی تحقیقات کے مطابق اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دین اسلام نے انسان سے خدا کے انسان سے انسان کے اور خود اس کے حقوق اور روابط کو بیان کیا ہے ۔

 

 سوال : انسانی علوم (ھیومن سائنسس) کے ساتھ دین کا کیا رابطہ ہے کیا یہ علوم دین میں شامل ہیں یا دین ان کی تصحیح کرتا ہے یا دین و انسانی علوم الگ الگ ہیں ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ :  دین علوم کو ایجاد کرنے نہیں آیا ہے دین جو کہ پیغمبروں بالخصوص رسول اسلام (ص) کی رسالت کے عنوان سے نازل کیا گیا ہے اس کی ذمہ داری فزکس کمسٹری یا دیگر علوم کی ایجاد نہیں ہے بلکہ دین راہ دکھاتا ہے اور مفاھیم و روش پیش کرتا ہے جیسے کہ اسلام نے معرفت کے موضوع میں انسان کے لے خاص روش پیش کی ہے اور اس کے بھی دو طریقہ ہیں پہلا طریقہ تامل تفکر ژرف نگری کا ہے ارشاد ہوتا ہے

و یتفکرون فی خلق السماوات والارض و قالوا ربنا ماخلقتنا ھذا باطلا اور زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں پروردگار تو نے یہ سب بیہودہ وعبث پیدا نہیں کیا ہے ۔

دوسرا طریقہ تجربہ اور استقراء کا ہے ارشاد ہوتا ہے فاعتبروایا اولی الباب اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو ۔ دین انسان سے کہتا ہے کہ خدا نے تجھے عقل عطا کی ہے اپنی عقل سے کام لے اور تاکہ اسرار حیات و ھستی کو سمجھ سکے جہاں تک تیرے لے ممکن ہو اور خدا نے تجھے حواس عطا کے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اشیاء کو براہ راست طرح سے پہچان سکو ان حواس کو ذمہ داری سے استعمال کرو ارشاد ہوتا ہے کہ الم نجعل لہ عینین و لسانا و شفتین و ھدیناہ النجدین کیا ہم نے انسان کو دو آنکھیں زبان اور دو ہونٹ نہیں عطا کے اور اس پر خیر وشر کو واضح نہیں کیا ؟ قرآن کا مطالبہ ہے ان حواس کو باطل کاموں میں استعمال مت کرو اور ان لوگوں میں سے نہ رہو جن کا دل نہ سمجھنے والا کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں ،بنابریں یہ معلوم ہوا کہ اسلام نے معرفت کے لے انسان کے سامنے دو قاعدے پیش کے ہیں اور انسان سے مطالبہ کیا ہے کہ تامل و تجربے سے اپنی فکر کو صیقل دے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ گفتگو میں بھی ان ہی امور سے استفادہ کرے اسی وجھ سے خدا نے اچھے اور برتر جدال کی بات کی ہے اور انسان کو حکم دیا ہے کہ بحث وجدال کرتے وقت موضوع کو اچھی طرح سمجھ لے اور اس کے بارے میں خوب سوچ و چار کر لے ارشاد ہوتا ہے ھاانتم ھؤلاء حاججتم فیما لکم بہ علم فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم ۔ اس کے علاوہ خدا کا ارشاد ہے کہ کسی بھی چیز کو مسترد کرنے یا اس کی تائید کرنے کے لے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ارشاد ہوتاہے قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین اس رسول کھہ دو اپنی دلیل پیش کرو اگر سچ کہتے ہو تو۔ بنابریں دین نے حصول معرفت کے لے ایک قاعدہ وضع کیا ہے یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کبھی انسان فلسفہ کے ذریعے معرفت حاصل کرلیتا ہے لیکن یہ معرفت اسلامی معرفت نہیں کہلاے گی یعنی روش فلسفہ بے خطا اور غیرمنازع نہیں ہے کیونکہ استدلال کی روش انسانی روش ہے جس میں خطا کا امکان پایا جاتا ہے لھذا ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی فلسفہ اسلام سے الگ ہے ہم اسلامی فلسفہ کو اسلام پر تھونپ نہیں سکتے، اسلامی فلسفہ ایسا علم ہے جس میں فکری تجربوں کے سہارے جو کبھی خطا کرتے ہیں اور کبھی صحیح ہوتے ہیں بعض اسلامی افکار وعقائد پر استدلال کیا جاتا ہے خلاصہ یہ کہ اسلامی فلسفہ ،مسلمانوں کا فلسفہ ہے اسلام کا نہیں ،اور ہم سب کو معلوم ہے کہ اسلامی فلسفہ یونانی فلسفہ سے ماخوذ ہے مسلمان مفکرین نے جو یونانی فلسفہ سے آشنا تھے اس میں بعض امور کا اضافہ کیا اور اس کی تصحیح کی ہے ،البتہ قرآن میں بعض فلسفی نظریات کا ذکر ملتا ہے یہ نظریات ہرچند فلسفی ہیں لیکن دوسرے لحاظ سے وجدانی ہیں جیسے اس آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے ماتخذاللہ من ولدوماکان معہ من الہ اذن لذھب کل الہ بماخلق ولعلی بعضھم علی بعض خدا کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئي دوسرا معبود ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوقات کو اپنے ساتھ لے جاتا ۔اس کے علاوہ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوکان فیھما آلھۃ الااللہ لفسدتا اگر اسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ کوئی اور خدا ہوتا تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے .

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحی العظام وھی رمیم ،قل یحییھاالذی انشاءھا اول مرۃ وھو بکل خلق علیم ہمارے لے مثال لے کر آیا اور اپنی خلقت بھول گیا اس نے کہا ان پوسیدہ ھڈیوں کو کون زندہ کرے گا اے رسول کھہ دو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں خلق کیا تھا اور وہی ہر طرح کی تخلیق سے آشنا ہے ۔ ان آیات کے مضامین کو اصطلاحا فلسفہ نہیں کہا جاسکتا گرچہ یہ مضامین فلسفی قاعدہ میں سما سکتے ہیں ہم یہ کہنا چاھتے ہیں کہ تمام علوم خواہ فلسفی ہوں یا نفسیات ہو یا علوم اجتماعی ہوں یا انسانی علوم کی فروع ہوں سب کے سب انسانی نطریات کا مجموعہ ہیں اور ان کے بعض مسائل کو واضح کرنے کے لے علما کبھی کبھی قرآنی آیت یا حدیث و روایت کا سہارا لیتے ہیں بہرحال آیات و احادیث کا فہم و ادراک انسانی اجتھاد کی اساس پر ہے اور اس پر بحث کی جاسکتی ہے ،لیکن پیغمبر(ص) کافھم و ادراک خطا و لغزش سے مبراہے کیونکہ آپ معصوم ہیں اور آپ کو کتاب وحکمت کی تبلیغ کے لے بھیجا گیا ہے لھذا پیغمبر (ص)کا فھم و ادراک بشری ادراک کی طرح نہیں ہے اسی طرح سے اھل بیت رسول اسلام (ص) کا ادراک و فھم بھی خطا سے مبرا ہے کیونکہ وہ سب معصوم ہیں تاہم یہ بات ذھن میں رہنی چاھیے کہ رسول و ائمۃ معصومین کی طرف منسوب باتوں کی صحت و سقم میں اختلاف ہے ،اسی لے روایات کے صحت و سقم کو جاننے کے لے قوانین وضع کے گے ہیں اور اس کا ایک بنیادی طریقہ یہ ہے کہ روایات کی قرآن سے تطبیق کی جاے چنانچہ خود ائمہ طاھرین سے نقل ہے کہ جو روایت کتاب خدا کی مخالف ہو وہ ہم پر لگایا گيا الزام ہے ۔

خلاصہ یہ کہ دین ایجاد علوم کے لے نہیں آیا ہے گرچہ وہ علوم اصطلاحا دینی علوم ہی کیوں نہ ہوں ،علوم کی بنیاد انسان نے رکھی ہے ،اسی طرح مسلمانوں نے بھی کتاب خدا اور سنت رسول (ص) کو سمجھنے کے لے بے انتھا کوششیں کیں اور نے نےعلوم کی ایجاد کی اب یہ ممکن ہے مسلمانوں کا اجتھاد صحیح رھا ہو اور ممکن ہے وہ کبھی حقیقت تک نہ پہنچ پاے ہوں بنابریں ان علوم کو اس وجہ سے کہ اسلام کو مجسم کرتے ہیں اور اسلام کا مظہر ہیں اسلامی علوم نہیں کہا جاسکتا ،لیکن چونکہ یہ علوم اسلامی اجتھاد کی اساس پر اسلامی مفاھیم و مسائل و مظاہر کو مجسم کرتے ہیں انہیں اسلامی علوم کہا جا سکتا ہے ۔

 

ایک اور مسئلہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ علم ودین میں تضاد ومنافات کا دعوی ہے یہ دعوی علمی دلیل پر مبنی نہیں ہے میں اس کی مزید وضاحت کرتا ہوں علمی نظریات کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم قطعی حقائق یا یقینیات کی ہے جیسے دو جمع دو چار ہوتے ہیں ،دوسری قسم وہ نظریات ہیں جو غور و فکر اور تجربوں سے حاصل ہوتے ہیں ، پہلی قسم میں کسی طرح کے شک نہ عقلی نہ حسی کی کوئي گنجائش نہیں ہوتی یہ امور بدیھی اور قطعی ہیں اس صورت میں نص دینی کی حقیقت عقلی اور علم قطعی کے مطابق تاو یل کرنی چاھیے اسی وجھ سے وہ  آیات جو جبر و تجسیم کے  بارے میں ہیں ان کی تاویل ایسے عقلی حقائق کے مطابق کرنی چاھیے جو ذات خدا کے بارے میں جبر و تجسیم کو محال قرار دیتے ہیں، لیکن وہ علمی نظریات جو بعض دینی نصوص سے ٹکراتے ہیں جیسے کہ ڈارون کا نظریہ  اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ نظریات ظنی ہیں کیونکہ ان کے قائلین نے ان نظریات کو استقراء کامل اور یقین پر منتج ہونے والے مقدمات سے حاصل نہیں کیا ہے، اگر نص دینی اس طرح کے نظریات کا مخالف ہوتو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ علم و دین میں تضاد ہے بلکہ ان نظریات کا حامل دانشور اور اس کی فھم نص دینی کی مخالف ہے اور ہوسکتا ہے حقیقت نص دینی میں پنہاں ہو علماء دین نے ڈاروین کے نظرے جیسے نظریات کی اس وجھ سے مخالفت کی ہے کہ یہ استقراء ناقص اور ناقص دلیلوں پر مبنی ہیں یہی نہیں علماء اسلام کے علاوہ غیر اسلامی علمااور دانشوروں نے بھی ان نظریات کی مخالفت کی ہے لھذا علم و دین میں تضاد کی بات صحیح نہیں ہے دین بعض اوقات دینی نظریات کی بھی مخالفت کرتا ہے جیسے ظنی علمی نظریات بھی کبھی ایک دوسرے کو مسترد کرتے ہیں اس کے علاوہ ایک اھم نکتہ یہ ہے کہ دین کبھی کبھی امور غیبی کی اطلاع دیتا ہے جسے علم درک نہیں کرسکتا مثال کے طور پر جنت وجھنم اور دنیاے آخرت اور بہت سے امور، ان امور کو علم یا سائنس براہ راست طریقے سے ثابت یا ان کی نفی نہیں کر سکتا اور یہ بھی نہیں کہتا کہ امر غیبی نہیں ہے، دین ان امور میں بالواسطہ طریقے سے علم کے لے راہ ہموار کرتا ہے جیسے کہ عقل کے سہارے نبوت پر استدلال کرتا ہے اور جب عقل نے نبوت کو ثابت کردیا تو اس کے لوازم اور نتائیج کو بھی ثابت کرتا ہے، لیکن علم جس طرح سے بہت سے حقیقی امور تک رسائی حاصل کرتا ہے ان غیبی امور تک نہیں پہنچ سکتا لیکن ان کی نفی بھی نہیں کرتا ،خلاصہ کلام یہ کہ علم دین کی نفی نہیں کرتا گرچہ اس کے پاس دین کے اثبات کے لے حسی اور ظاہری وسائل نہیں ہیں اسی طرح دین بھی علمی و عقلی حقائق کا انکار نہیں کرتا گرچہ بعض علمی نظریات سے اختلاف رکھتا ہے۔

 

سوال :کیا فقہی منابع سے عدالت کے عنوان سے کوئي فقہی قاعدہ حاصل کی جا سکتا ہے ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ : عدالت کا مفھوم نسبی مفھوم ہے اسے اس طرح سے بیان نہیں کیا جا سکتا کہ تمام لوگ اس کے مصادیق پر متفق نظر آئیں، عدم اتفاق کا سبب یہ ہے کہ عدل ہر صاحب حق کو اس کا حق دینے کے معنی میں ہے بنابریں اس کا مصداق معین کرنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر انسانی حقوق کے سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسان اپنے فردی امور کے سلسلے میں مکمل آزاد ہے جسمانی اور جنسی امور میں اسے کوئی اخلاقی قدر محدود نہیں کرتی یہاں تک کے اسے خود کشی کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی کو اس کی آزادی کو محدود کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔

 

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تمہاری آزادی وہاں پر ختم ہونے لگتی ہے جھاں سے دوسروں کی شروع ہوتی ہے یا یہ کہ فردی آزادی وھاں پر ختم ہوتی ہے جھاں سے اجتماعی آزادی شروع ہوتی ہے ۔

مسئلہ حق ان فکری قواعد کا تابع ہے جو انسان اور طبیعت(نیچر) کے لے کلی اصول وضع کرتے ہیں اس کے علاوہ مسئلہ حق اس کے بھی تابع ہے کہ حق آیا مادی ہے یا معنوی کیونکہ مادی اور معنوی لحاظ سے نظریہ حق میں فرق ہے یہ اختلاف صرف دین اور سکیولریزم کے درمیان نہیں ہے بلکہ خود سکیولریزم میں بھی انسانی حقوق کے بارے میں مختلف نظریات پاے  جاتے ہیں ،لھذا یہ کیسے ممکن ہے کہ عدل کا ایک تفصیلی عنوان پیش کیا جاۓ  جس میں تمام نطریات شامل ہوں اور سارے لوگ اس میں اپنا نظریہ عدل پا سکیں ؟کیونکہ میں اپنی فکر و نظر کے مطابق جس چیز کو عدل سمجھہ رہا ہوں عین ممکن ہے آپ اسے ظلم تصور کریں ،یہ اختلاف نظر خواتین کے حقوق ،بچوں کے حقوق ،نیز اجتماعی حقوق اور اقتصادی حقوق میں دیکھے جا سکتے ہیں ،فقہی منابع و مآخذ میں بھی تشخیص عدالت کے سلسلے میں فقہی نظریات مختلف ہیں مثال کے طور پر فقہاء کا مشہور نظریہ ہے کہ مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو تادم مرگ گھر کی چاردیواری میں محصور رکھے یعنی بیوی کی سہولت کی ہرشیء کا انتظام کرنے کے بعد اسے اپنی مرضی کے مطابق گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دے، ایک دوسرا نظریہ ہے کہ بیوی کوچار مھینوں میں ایک مرتبہ شوہرسے ھمبستر ہونے کا حق ہے اور چہ بسا یہ صرف نام کا حق ہے حقیقی معنی میں حق نہیں ہے ۔

 

دوسری طرف بعض فقہاء بیوی کے گھر سے نکلنے کے مسئلے کو شوہر کی تسکین سے مشروط کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ بیوی اس وقت گھر سے باھر جا سکتی ہے جب شوہر نے اس سے جنسی جذبات کی تسکین کا مطالبہ نہ کیا ہو بنابریں فقہی متون سے قاعدہ عدالت کا حصول نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہے یہ قاعدہ نہ فقہی استنباطات کی بنیاد رھا ہے اور نہ اس کی میزان پر فقہی نظریات کاجائزہ لیا جا سکتا ہے ۔

 

سوال :حضرت امام خمینی کا خیال تھا کہ حوزات علمیہ میں رائج و مصطلح اجتھاد اجتماعی وسیاسی احکام کے استنباط اور معاشرے کو چلانے کے لے ناکافی ہے آّپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ :میں اس مسئلہ میں امام خمینی سے پوری طرح اتفاق کرتاہوں کیونکہ رائج اجتھاد کی ھمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ نصوص میں مسائل زندگي کا حل تلاش کرے بغیر اس کے کہ موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھے کیونکہ ممکن ہے موجودہ صورتحال میں موضوعات بدل سکتے ہیں اس کے علاوہ مفاسد و مصالح کے ملاک بھی بدل سکتے ہیں اور مختلف عناوین ثانویہ عناوین اولیہ کی جگہ لے سکتے ہیں ۔

 

اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہےکہ رائج اجتھاد میں زیادہ تر اجتماعی احکام کی بہ نسبت فردی احکام پر کام کیا جاتا ہے اور یہ فقہ جو ہمارے سامنے ہے فقہ افراد ہے معاشرے ،روابط اجتماعی ،اور حکومت چلانے کا فقہ نہیں ہے ،آج کی دنیا میں ہرلحاظ سے خواہ فردی ہو اجتماعی ہو یا مختلف نظاموں کی بات ہو سیکڑوں عناوین و موضوعات سامنے آچکے ہیں جن سے ہمارا روایتی فقیہ یا رائج اجتھاد ناآشنا ہے لھذا جو مجتھد اپنے زمانے کے مطابق زندگي گزارنا چاھتا ہے اس کے لے ناگزیر ہے کہ وہ حالات کو اچھی طرح سمجھے تاکہ موضوعات وملاکات کا تعین کر سکے اسے اسی کے ساتھ ساتھ فردی اجتھاد کی بہت سی بنیادیں بھی منھدم کرنی ہونگي کیونکہ آج کل اجتماعی زندگی کا دائرہ نھایت وسیع ہو گیا ہے ،یہاں میں ایک مثال دینا چاھتا ہوں ماضی میں فقہاء ہرطرح کے جھادی عمل میں خون ریزی کے خوف سے شدید احتیاط کیاکرتے تھے کیونکہ نہیں اسلامی معاشرے کے اھم ترین امور میں بھی خون ریزی کے ڈر سے احتیاط کرنے کی عادت ہوگئی تھی لیکن آج کل حالات بدل گے ہیں اور امت اسلامی کی صورتحال نئی حکمت عملی کی متقاضی ہے ۔

سوال :آپ امام خمینی کی نظر میں ولایت فقیہ کے نظریے اور ان کی قیادت میں اسلامی حکومت کے تجربے کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ :امام خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ نھایت وسیع ہے اس طرح کہ ولایت امام و ولایت رسول اسلام (ص) سے جا ملتا ہے کیونکہ امام خمینی ولایت فقیہ کے بارے میں نصوص سے استفادہ کرکے حکومت سمیت انسانی زندگی کے تمام شؤونات کو اس ولایت کے تحت لے آتے ہیں ،امام خمینی جب اس حدیث العلماء روثۃ الانبیاء سے استناد کرتے ہیں تو یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ عالم (فقیہ ) انبیاء کے تمام اختیارات کا حامل ہے اسی اساس پر انہوں نے اپنا نظریہ پیش کیا اور اسی نظریہ کے مطابق جب ولی فقیہ کو ولایت حاصل ہوتی ہے تو وہ اولی الامر بن جاتا ہے سارے مسلمانوں کا ولی ہوتا ہے اور ان کے تمام امور جیسے سیاسی اجتماعی اور اقتصادی امور میں تصرف کرسکتا ہے اور ان پر اپنی اطاعت واجب قراردے سکتا ہے ۔

 

امام خمینی نے اپنی انقلابی تحریک میں اس نظریہ کو عملی جامہ پہنایا آپ نے عوام کو شاھی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور اس حکومت کا تختہ الٹنے کی دعوت دی خواہ اس راہ میں قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑیں یہاں تک کہ آپ نے ولایت فقیہ کی اساس پر اسلامی حکومت تشکیل دی ۔

امام خمینی کا یہ تجربہ نھایت کامیاب رھا ہے کیونکہ آپ نے ولایت فقیہ کو رائج ذھنیت سے جو اسے حکومت الھیہ مطلقہ سمجھتی تھی اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا تھا (جس طرح سے کہ قرون وسطی کی حکومتیں تھیں ) نکالا اور اسے عوام کی آراء و اعتماد پر منحصر قراردیا اسی بناپر امام خمینی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں ولایت فقیہ پر عمل درآمدکے سلسلے میں عوام کی راۓ  یا ریفرنڈم کو ضروری قراردیا جس پر بعض لوگوں کو تعجب بھی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امام خمینی اسلامی جمہوریہ کے آئين کو جو اسلامی معیارات پر مبنی تھا اس پر ریفرنڈم کروایا ہے اس کام کا مقصد یہ ہے کہ امام خمینی عوام سے پوچھہ رہے تھے کہ کیا اسلام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں ؟ایک فقیہ کا یہ کام انجام دینا نھایت اھمیت کا حامل ہے ۔

گرچہ آئين اسلامی قوانین پر مشتمل تھا اور اس پر عوام کی راے لینا گویا اسلام کے بارے میں عوام کی راۓ لینے کے مترادف تھا ،آئين کے بعد صدارت ،پارلمنٹ ،اور دیگرحکومتی اداروں کے بارے میں اور اسلامی نظام کے بارے میں جو ولایت فقیہ کی اساس پر استوار ہے عوام کی راۓ لی گئي اس طرح یہ تمام حکومتی ادارے سیاسی لحاظ سے عوامی راۓ پر مشتمل ہو نگے اس خصوصیت سے دنیا کی اکثر حکومتیں یہانتک کے ترقی یافتہ دنیا بھی عاری ہے امام خمینی نے ان تدابیر سے نظریہ ولایت فقیہ کو حکومت الھیہ مطلقہ میں تبدیل ہونے سے (مغربی معنی میں ) بچالیا ۔

اگر حکومت ولایت فقیہ میں ولی فقیہ عوام کے فیصلوں کی توثیق کرتا ہے تو امام خمینی نے اپنی قیادت کے دوران کبھی بھی عوام کے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ انہیں قبول کیا اور "شوری" کے نظریہ کو وسعت بخشی اس کے علاوہ شوری کو صرف اھل حل و عقد کی کمیٹی میں محصور کرنے کے بجاۓ اسے عوام کی شرکت کے میدان میں تبدیل کردیا ۔

حضرت امام خمینی حکم ثانوی کے مطابق اس امر میں اسلامی مصلحت دیکھ رہے تھے کہ مجلس شوری قائم کی جاۓ اور وہ بھی عوام میں اکثریت کے ووٹوں سے ۔

امام خمینی کے حکومتی تجربوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ عوام کے مقابل حکام پر کڑی تنقید فرمایا کرتے تھے جب کبھی کوئي سرکاری عھدیدار فکری یا عملی لحاظ سے خطا کا مرتکب ہوتا تھا تو امام خمینی عوام کے سامنے اس کے خلاف گفتگو کیا کرتے تھے اور عوام سے کوئي چیز پوشیدہ نہیں رکھتے تھے بلکہ اس سرکاری عھدیدار کو مخاطب کرکے فرماتے تھے کہ تم نے غلطی کی ہے تمہیں اس کا تدارک کرنا چاھیے ۔

امام خمینی مستبد حکام یا بعض جمہوری حکومتوں کے حکام کے طرح جو اپنے اعلی عھدیداروں کی لغزشوں اور غلطیوں کو عوام سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور پس پردہ ان سے سازباز کرلیتے ہیں عمل نہیں کرتے تھے اسی وجہ سے ہمارا خیال ہے کہ ولایت فقیہ کے بارے میں امام خمینی کی کارکردگي نھایت ممتاز اور انسانی اقدار پر مبنی ہے ،اسی کے ساتھ ساتھ چونکہ امام خمینی غیر معصوم تھے اور جو لوگ اس مرحلے میں ان کے ساتھ تھے وہ بھی معصوم نہیں تھے لھذا امام خمینی کے نظریات کا تجزیہ وتحلیل کرتے وقت توقف نہیں اختیار کرنا چاھیے بلکہ تحقیقی روش اپنانی چاھیے جس طرح سے آج کے فقہاء ماضی کے فقہاء کے نظریات پر تحقیقی نگاہ رکھتے ہیں اسی طرح سے سیاست عرفان اور دیگر علمی میدانوں میں بھی تحقیقی روش اختیار کرنی چاھیے ان باتوں سے ہمارامقصد یہ نہیں ہے کہ صرف غلطیاں تلاش کی جائیں بلکہ ہم یہ کہنا چاھتے ہیں کہ عظیم شخصیتوں کی زندگی کا جائزہ لیتے وقت ان کی فکری اور عملی کارکردگی کا علمی روشوں پر جائزہ لیاجاے تاکہ حاصل ہونے والے علمی نتیجوں سے استفادہ کیا جا سکے اور کہیں بھی افکار ونظریات کسی خاص شخص کے نام پر رکود کا شکار نہ ہوجائیں ۔

سوال :انسانی زندگی اور انسانی معاشرے میں حاکمیت خدا کے کیا معنی ہیں ؟

آیۃ اللہ فضل اللہ :ظاہر سی بات ہے کہ عقیدہ و شریعت اسلامی اصولوں کے دو سرچشمے ہیں ،عقیدہ کے لحاظ سے خدا نے ہی اس کائنات کو خلق کیا ہے یعنی تکوینی شکل عطا کی ہے وہی ہے جو خالق ہونے کی حیثیت سے دنیا پر مطلق حکمرانی کرتاہے اور اسی کی قدرت ہر شیء پر سایہ افکن ہے وہ ہم سے زیادہ ہمارے نفوس سے آگاہ ہے وہی توانا ہے اور ہمارے اچھے برے کا علم رکھتاہے ارشاد ہوتاہے کہ الا یعلم من خلق وھواللطیف الخبیر  ۔

جس نے خلق کیا ہے کیا وہ نہیں جانتا جبکہ وہ باریک بین اور آگاہ ہے ،بنابرين تکوینی معنی میں حاکمیت صرف خدا سے مختص ہے یعنی یہ کہ ہمارا وجود اور تمام اشیاء کا وجود خدا کے ارادے کا تابع ہے اس امر کا تعلق اصل توحید اور نفی شرک سے ہے ۔

تشریعی مفھوم کے تحت ان آیات کے ذریعے خدا کی حاکمیت کے معنی سمجھے جا سکتے ہیں ارشاد ہوتاہے

وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم

اور نہ کسی مومن و مومنہ کو یہ مناسب ہے کہ جب خدا اور اس کےرسول کسی کام کا حکم دین توانہیں اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتاہے فلاو ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما اے رسول تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تاوقتیکہ اپنے باھمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم نہ بنالیں پھر جو کچھہ تم فیصلہ کرو اس سے دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو بھی مان لیں ۔

ایک اور آیت میں ارشاد ہے

ثم جعلناک علی شریعۃ من الامر فاتبعھا و لاتتبع اھواءالذین لایعلمون پھر اے رسول ہم نے تم کودین کے کھلے راستہ پر قائم کردیا تو اسی راستے پر چلتے رہو اور نادانوں کی پیروی نہ کرو۔

ان آیات کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو خدا کے حاکم ہونے، اور جو لوگ احکام الھی کے مطابق حکومت نہیں کرتے ان کے کافر و ظالم ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان آیات کا مفھوم یہ ہے کہ خدانے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس کی بھیجی ہوئي شریعت پر خلوص کے ساتھ عمل کريں اور اس کی بندگی بجا لائیں خدا انسانی حیات کو عالم ھستی کے ساتھ ھماھنگ دیکھنا چاھتا ہے تاکہ عالم ھستی تکوینی صورت میں اور انسانی حیات تشریعی صورت میں ارادہ الھی کی تابع رہیں اس طرح وہ انسان جو الھی احکام و سنن کی اتباع کرتا ہے اس کی زندگي تکوینی و تشریعی لحاظ سے ھماھنگ ہوتی ہے بنابریں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ شریعت الھی کے مقابل قانون وضع کرے اور یا قانون الھی سے تجاوز کرے ۔

 

اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کو جو اختیارات دے گے ہیں ان کے تحت اس کوحکومت کرنے اور قانون وضع کرنے کا حق نہیں ہے حکومت الھی کے معنی انسان کو رکود کا شکار بنانے کے نہیں ہیں یہ ھرگز صحیح نہیں ہے کہ صرف حاکمیت خدا کے نعرے لگاے جائيں اور انسانی زندگي کے لے اس کے علمی پہلو واضح نہ ہوں خدا انسان کے ذریعے حکومت کرتاہے بنابريں ناگزیر انسان ہی کو انسان پر حکومت کرنی ہوگی تاھم اھمیت اس بات کی ہے کہ حکمران انسان کو ان صفات وکمالات کا حامل ہونا چاھیے جو خدا نے حکومت کے لے ضروری قراردی ہیں ،اسی وجھہ سے اسلام میں حکومت کا جائزہ لینے سے خواہ امامت کے لحاظ سے ہویا خلافت کا نظریہ ہو یا شوری کا،فقہاءو مسلمان مفکرین کے وضع کردہ اصول وضوابط کی بناپر چہ بسا حکومت کا دائرہ کارنظریہ امامت و خلافت سے وسیع تر ہوجاۓ ،بہر حال حاکمیت خداوند کے معنی حکومت کے خدائی ہونے کے نہیں ہیں اور حاکم اصولوں اور ضوابط سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ وہ ظل اللہ ہے ۔

 

خدا نے اپنے رسول کے لے بھی حدود و قوانین معین کے ہیں پیغمبر بھی جو اعلی ترین انسانی صفات کے حامل ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے حکومت نہیں کرسکتے گرچہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ان کی مرضی بھی عصمت کے تحت ہے لیکن خدا نے امر حکومت کو ذاتی امر نہیں بنایا ہے بلکہ یہ ایک ادارہ ہے جو الھی اقدار پر مبنی ہے خدا اپنے انبیاء کرام اور نبی رحمت (ص) سے خطاب کررھا ہے کہ لقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک  بتحقیق کہ تمہیں اور تم سے پہلے کے انبیاء کو وحی کردی گئی ہے کہ اگر شرک کروگے تو تمہارے اعمال تباہ ہوجائیں گے ۔

 

ایک اور آیۃ میں ارشاد ہوتاہے کہ ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین  اگر رسول بعض( جھوٹ) باتیں ہم پر باندھیں تو ہم ان کا سیدھا ہاتھ سختی سے پکڑ لیں گے اور ان کی رگ حیات کاٹ دیں گے ۔

 

بنابرین اسلام میں حکومت ،حکومت الھی نہیں ہے جس طرح سے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الھی حکومت سے مراد ایسی حکومت ہے جس میں ایک شخص اپنے ارادے اور ذاتی نظریات کے مطابق حکمرانی کرتا ہے اور اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا اور کسی کو اس پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہوتا، اسلام میں ایسی حکومت کا کوئی مقام نہیں ہے خدا اپنے رسول (ص) کوبھی حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے مشورہ کیا کرو گرچہ رسول وحی سے مرتبط ہے ارشاد ہوتا ہے وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ  کاموں میں ان سے (لوگوں ) سے مشورہ کرو اور جب کسی بات کا فیصلہ کرلو تو خدا پر توکل کرو، لھذااسلام میں ایسی حکومت ان حالات کے عین مطابق ہے جن میں حاکم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں یعنی یہ حکومت مطلقہ الھیہ نہیں ہے بلکہ انسانی حکومت ہے جو شریعت خداوندی کی اساس پر قائم ہوتی ہے ،رسول اسلام (ص) کی سیرت طیبہ اور سنت مبارک میں ہميں دیکھنے کو ملتا ہےکہ آپ (ص) معصوم ہونے کے باوجود

اپنی زندگي کے آخری ایام میں عوام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ انکم لاتمسکون علی بشیء اننی مااحللت ما احل اللہ و ماحرمت الا ما حرم اللہ اے لوگو تم مجھے ہرگز مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے کیونکہ میں نے حلال خدا کو حلال قراردیا ہے اور حرام خدا کو حرام قراردیا ہے

گویا رسول اسلام (ص) فرما رہے ہیں کہ میری ساری زندگی اور کار رسالت دعوت وتبلیغ اور حکومت کا باریک بینی سے جائزہ لے لو اور اس کا اس شریعت سے مقابلہ کرلو جو میں نے تم تک پہنچائی ہے میری زندگي کا ہرپل اس شریعت سے ھماھنگ ملے گا اس بات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اسلام میں حکومت ،انسانی حکومت ہے جو خدا کے وضع کيے ہوۓ  قوانین کے مطابق ہوتی ہے ۔

https://taghrib.ir       


متعلقہ تحریریں:

 ڈاکٹر موسی ابو مرزوق  سے انٹرویو

آمنہ بنت الہديٰ ، ايک جليل القدرخاتون!