• صارفین کی تعداد :
  • 4901
  • 6/9/2008
  • تاريخ :

سلسلہ  ھخامنشی

سلسلہ  ھخامنشی کا بڑا کارنامہ(تخت جمشید)

 ھخامنشی سلسلہ کے ظہور کے ساتھ ہی دنیا کی اس دورکی سیاست میں ایران کا کردار بھی اہمیت کا حامل قراردیا جانے لگا،اس سلسلہ کے مورث اعلی نے انشان کے ایک حصہ ھخامنشیان میں ایک چھوٹے سے علاقہ سے اپنی حکومت کی ابتداء کی تھی (ح۷۰۰ق م)۔  اس کے بیٹے نے اپنی حکومت میں دوسرے علاقے بھی شامل کئے اور انشان کو چھوڑ کر صوبہ پارس تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا،اس کے بعد اس کی حکومت اس کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی، پارس کی حکومت آریارمینہ کے حصہ میں آئی اور انشان کورش اول کو ملا اوریہیں سے ھخامنش خاندان دو بڑی شاخوں میں تبدیل ہو گیا اورانہوں نے ایک طویل مدت تک حکومت کو اپنے درمیان تقسیم رکھا اوراس پر حکومت کرتے رہے۔

        

  کمبوجیہ اول کے بیٹے کورش دوم ملقب ”کبیر“ نے جو کہ ھخامنشیان کے انشان سلسلہ سے تھا، درحقیقت وہی اس جہانی حکومت کا بانی تھا۔  اس کی انشان ریاستی حکومت کا آغاز ۵۵۹ق م میں ہوا لیکن اس نے پارس کے تمام قبائل کو متحد کرنے ایران کو حکومت اورقدرت کو مادوں کے چنگل سے نکالا اورہمدان کے سقوط کے ساتھ ہی کورش کی مستقل حکومت کا آغاز ہوگیا۔

         

 کچھ ہی عرصہ بعد ساردپر پارس کی فوج کے حملہ کے ساتھ ہی لیدیا کی حکومت بھی سرنگوں ہو گئی(۵۴۷ق م)اوراس کے بعد بتدریج تمام ایشیاء صغیر اور یونانی آناتولی کی زیرتسلط حکومتوں پر ھخامنشیان کا قبضہ ہوگیا (۵۴۶ق م) یہ واقعہ یونانیوں سے ھخامنشیان کے سیدھے ٹکراؤ کا سبب بنا جس کا نتیجہ طویل اور ہمیشہ رقابت اورجنگ کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ کچھ ہی سالوں میں کورش نے مشرقی ایران اورمرکزی ایشیاء کی تمام ریاستوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت میں شامل کر لیا (۵۴۵۔۵۳۹ق م) اس کے بعد بابل پرحملے کی تیاریوں میں لگ گیا اورمختصرسے حملوں اورجنگ کے بعد بابل کے مضبوط قلعے، برج اورڈھیروں مہمات کے باوجود اسے فتح کرلیا گیا ۵۳۹ق م) اس کے بعد کورش شہنشاہ بابل کے نام سے جانا جانے لگا،اس نے صلح وصفائی کی تاکید کے بعد عبادت گاہوں کی تعمیرنو کاحکم دیا۔ بابل کو تسخیر اور فتح کرنے کے ساتھ ہی بین النہرین، شام ،فلسطین اور فنیقیہ کے علاقے بھی (۵۲۹ق م )سے ھخامنشیان کی حکومت میں داخل ہوگئے، کورش ظاہرا سکایی نامی صحرائی قبیلہ کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا (۵۳۰ق م) بہرحال اس کی موت کا سبب واضح نہیں ہوسکا ہے۔  اس کے بارے میں تاریخ میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

        

  کورش کی فرمانروائی کا علاقہ اس قدر وسیع وعریض تھا کہ اس سے پہلے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اس نے اپنی راجدھانی کا نام اپنے قبیلہ پر افتخار کے عنوان سے پاسارگاد رکھا، کورش کی شہرت ایک بڑی فرمانروا اورفاتح کے عنوان سے اس کے زمانے کے صدیوں بعد تک ہمیشہ لوگوں کی تحسین کا سبب رہی، جس زمانے میں قتل وغارت وخون ریزی ومذہبی سختی اس زمانے کے بادشاہوں کا وطیرہ تھا۔  کورش نے اس طرح کی باتوں سے پرہیزکیا اورحکومت وسلطنت کی نئی راہ لوگوں میں متعارف کرائی، کورش کی نظر انداز کرنے والی اس سیاست نے جس پر بعد میں دوسرے ھخامنش بادشاہوں نے بھی عمل کیا، اس حکومت کے توسعہ اوراس کے نظم و ضبط میں مددگار ثابت ہوئی۔

کوروش کا مدفن

          کورش کے بعد اس کا بیٹا کمبوجیہ (۵۳۰۔۵۲۲) نے باپ کی حکمت عملی کے مطابق فتح مصر کو عملی کرکے دکھایا (۵۲۵ق م)اورشمال افریقا کے بعض علاقوں کو ھخامنش حکومت کے زیرقیادت لے آیا، کمبوجیہ کی ایران میں عدم موجودگی کے زمانے میں ایک مذہبی رہنمانے جس کا  نام گئوماتہ تھا، خود کو مقتول کمبوجہ کا بھائی ثابت کرکے ایران کے تخت پرقابض ہوگیا، کمبوجیہ کو جیسے ہی بغاوت کی خبرہوئی اس نے ایران کا رخ کیا مگرراستہ ہی میں نامعلوم طریقے سے اسے قتل کردیا گیا اورسرانجام داریوش اول جو ھخامنش کے پارس خاندان کا فرد تھا، گئوماتہ کوقتل کرکے تخت حکومت پر بیٹھا (۵۲۲ق م)۔

          داریوش کا خودنوشت کتیبہ بیستون کے مطابق(ستون۴،کے بندنمبر ۵۲،۵۷، ۵۹، ۶۲ ) تخت پربیٹھنے کے ایک سال بعد تک بغاوتوں کو کچلتا رہا جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں، اس کے باوجود کہ داریوش کی صداقت جواس نے کتیبہ بیستون میں بیان کی ہیں اس سے گئوماتہ کے واقعہ میں شک وشبہ کا شکار ہوجاتا ہے۔

          داریوش اول کی حکومت میں ھخامنش سلطنت کی وسعت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا، داریوش کی حسن تدبیراور انتظامی صلاحیتیں ملک میں امنیت کا سبب بنیں، اس نے ملک میں مختلف منظم شعائر،اقتصادی اورانتظامی ادارے قائم کئے، ملک کو انسجام بخشا،اس کے حکم سے تخت جمشید اور شوش کی عظمی عمارتیں تعمیر ہوئیں، سونے کے سکے جاری ہوئے،شاہی سٹرکیں تعمیرہوئیں جو شوش کو سارد اورافسوس سے متصل کرتی تھیں، ایک دائمی فوج، تشکیل دی گئی، یہی وجہ ہے کہ اسے پارس کی بادشاہت کا معمار(موسس) نام اورکبیر لقب دیا گیا ہے، لیکن داریوش غربی علاقوں کی طرف سے ہمیشہ دشواری کاشکار رہا اسکی افواج نے یونان کے ماراتن نامی علاقہ میں ہزیمت اٹھائی اورانہیں عقب نشینی کرناپڑی (۴۹۰ق م) یہ غیر متوقع واقع سبب بناکہ یونانی اس جنگ کےبارے میں جومبالغہ چاہیں کریں کچھ عرصہ بعد داریوش اول جوشاید عہدقدیم کی مشرق زمین کا سب سے مقتدر بادشاہ تھا ،اس دنیا سے انتقال کرگیا۔

          اس کاجانشین اوربیٹا خیشارشا اپنے باپ والی انتظامی استعداداورصلاحیت سے محروم تھا، اس نے اس نے مصر وبابل کی بغاوتوں کوبری طرح کچل ڈالنے کے بعد یونان پرچڑھائی کردی اورآتن کوتہہ وبالاکرڈالا مگر ھخامنش دریائی افواج کو سالامیس نامی گھاٹی میںبہت نقصان اٹھاناپڑا(۴۸۰ق م)یونانیوں نے اس جنگ کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا، خصوصا جنگی بیڑوں اور ھخامنش کی فوج کی تعداد کے بارے میں افسانے تراشنے اورگھڑنے شروع کردئیے، حالانکہ یہ شکست خشیارشا کی امیدوں کے قطعی برخلاف تھی لیکن ایران میں کوئی اس کوایک معمولی اوروقتی شکست ماننے کوتیار نہیں تھا۔

   

خشایارشا

     خشیار کے قتل کے ساتھ ہی (۴۶۵ق م)جوایک سازش کا نتیجہ تھا، ھخامنش حکومت کادربار آہستہ آہستہ حرم سرا سازشوں اورخواجہ سراؤں کی سیاست بازیوں کا شکارہوگئی، داریوش اول کے اکثر جانشینوں میں حکومت کی تدبیر ولیاقت نہیں تھی اس کے باوجود ھخامنش حکومت ایک طویل عرصہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی رہی اس کا سبب خود داریوش کے ذریعہ قائم ومنظم ومقتدر ادارے اورحکومت تھی جس کی تاسیس اس نے کی تھی، حتی کہ مصر کے ھخامنش حکومت سے داریوش دوم (حک۴۲۳۔ ۴۰۴ق م)کی حکومت کے آخری دورمیں جدا ہوجانے کے بعد ،اوراس کے بیٹے کورش (حک۴۰۱ق م)کی اردشیردوم کے بھائی (حک۴۰۴۔۳۵۹ق م)کے خلاف بغاوت اورھخامنش حکومت سے ۱۰ہزار یونانی افواج کے قلب لشکر ھخامنش کے جداہونے اپنے ملک واپس ہوجانا، جو ھخامنش حکومت کی فوجی انحطاط کی نشانی ہے اس کے باوجود ھخامنش حکومت جوں کی توں رہی اس پرکوئی اثر نہیں پڑا حالانکہ مصر چند سال کے بعد اردشیرسوم (حک۳۵۹۔۳۳۸ق م)کے دور کی حکومت دوبارہ پارسیوں کی حکومت سے ملحق ہوگئی،داریوش اول نے ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کررکھاتھا یہ تقسیم چند جزئی تغییرات کے علاوہ پوری کی پوری آخرتک ویسے ہی باقی رہی۔ وہ فہرست جو ہردوت نے ھخامنش حکومت کی تقسیم کے بارے میں ذکرکی ہے اگرچہ کہ اس سلسلہ کے بادشاہوں کے کتیبہ سے مختلف ہے، مگراس سے ان علاقوں کے مالیات(ٹیکس) کے بارے میں زبردست اوردلچسپ اطلاعات فراہم ہوتی ہے۔ اردشیرسوم کوسیاسی وفوجی کامیابیوں کے باوجود، اپنے بھائیوں اورقریبی رشتہ داروں کاقتل عام کرنا، اس کی حکومت کی تباہی ثابت ہوئی، جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ھخامنشی بادشاہ داریوش سون نے خود کو سکندر مقدونی کے مقابلے میں مجبور وکمزورپایا، سکندر کے لشکرکے ساتھ اس کی پہلی جنگ ایشیاء صغیر کے مغرب میں گرانیکوس ندی کے کنارے ہوئی جس سے ہزیمت اٹھانی پڑی(۳۳۴ق م) اس کے بعد خلیج اسکندروں کے قریب ایسوس کے مقام پر سکندر کی دوسری فتح کے ساتھ(۳۳۳ق م) داریوش کا خانوادہ اورڈھیروں غنائم پراسکندرکی فوج کا قبضہ ہوگیا (۳۳۲ق م) مصرکی فتح کے بعد اسکندرنے بابل کارخ کیا اورموصل کے نزدیک ”گاوگاملا“(گوگمل)میں ھخامنش سپاہ سے اس کی آخری لڑائی ہوئی جس میں اس فتح حاصل ہوئی (۳۳۱ق م) اس فتح سے شوش اورتخت جمشید بھی اس کے قبضہ میں اگئے، اسکندر جوکہ داریوش سوم کا پیچھا کررہاتھا، آخرمیں اس کو داریوش کی لاش ملی، داریوش کو اس کے ساتھیوں نے قتل کیاتھا (۳۳۰ق م )