• صارفین کی تعداد :
  • 4467
  • 1/2/2008
  • تاريخ :

حکیم الامت علامہ اقبال (رح) مرد عمل تھے

 

علامه اقبال لاهوری

حکیم الامت علامہ  اقبا ل( رح ) نہ تو ظاہر دار تسبیح بدست لوگوں کی طرح تھے، جن کی زبان ذاکر، دل غافل اور عمل مخالف ہو۔ اور نہ خشک فلسفیوں اور منطقیوں کی طرح شب و روز عقل پیچاکوں میں گم رہتے ہیں کہ عمل اور اخلاق کا گذر ہی جن کے پاس سے نہیں ہوتا۔ نہ ایسے قلم و قرطاس سے وابستہ کہ دفتروں کے دفتر سیاہ کرنے میں صرف کر دیں، نہ ہی شعراء غارین کی طرح ’’فی کل واد یھیمون‘‘ کے مصداق وادی وادی میں داد و تحسین شعری کیلئے مارے مارے پھرتے رہیں۔ حضرت حکیم الامت عمل کے انسان تھے۔

      پیکر اخلاق حسنہ تھے۔ سوانحی اقبالیاتی ادب کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقبال (رح ) پیکر اخلاقِ کریمانہ تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ تعمیرِ اخلاقِ اقبال میں اولین معمار والدین اقبال ہیں۔ بعد ازاں شمس العلماء میر حسن کی صحبت و تربیت نے اس میں اور نکھار پیدا کیا۔ انہوں نے حضرت اقبال کو صرف لفظ شناسی ہی نہ سکھلائی بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور بھی کیا۔ صرف طاقت لسانی، زبان فہمی، زبان دانی ہی نہ سکھائی بلکہ اخلاق عالیہ کی آبیاری بھی قلبِ اقبال میں فرمائی۔ صرف گفتار کا غازی نہ بنایا بلکہ کردار کا غازی بھی بنایا۔ حیات اقبال کا ورق ورق انہی بلند اخلاقی اقدار کا غماز و عکاس ہے۔

   حضرت اقبال والیء کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جوں جوں مدارج طے کیے توں توں سیرت اقبال میں اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ وہ مظہرِ اخلاقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ سیرت و کردار اقبال کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ وہ سنن ھدیٰ یعنی سنن عادیہ کی بھی پیروی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اقبالیین نہ جانے ان کو کہاں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ پروفیسر فرمان اپنی کتاب اقبال اور تصوف میں رقم طراز ہیں کہ حضرت علامہ نے خود فرمایا کہ لوگ مجھے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں ڈھونڈتے پھریں گے لیکن میں تو میر حسن کے قدموں میں ہوں۔ حضرت اقبال مغربی جامعات میں اکتسابِ علم کیلئے ضرور گئے لیکن مغربی تہذیب و اخلاق ان پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ جن آنکھوں میں مدینہ و نجف کی خاک کا سرمہ ہو ان کو تہذیبی فسوں کاری خیرہ نہیں کر سکتی۔ وہ مصطفوی، مرتضوی تھے۔

   وہ دسترخوان علم و اخلاقِ مصطفوی اور مرتضوی کے ریزہ چیں تھے۔ وہ مغرب کے دریوزہ گر نہ تھے، وہ اسی نظام اخلاقیات کے معلم و پرچارک تھے۔ تصور مرد مومن اور تصور خودی۔ ان دونوں تصورات کا عمیق تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تہوں میں فروغ اخلاق کریمانہ کا تصور مضمر ہے۔ مرد مومن، اوصاف حمیدہ، اخلاق حسنہ، عبادات تسلیمہ، اعمال صالحہ اور احوال عالیہ کا مجموعہ ہے۔ تصور خودی، خود نگری، خود اعتمادی، خودداری، نفس شناسی، معرفت ذات ہی کا دوسرا نام ہے۔ تصور خودی سے حضرت اقبالرح کا مقصود نظر تطہیر فکر اور تعمیر کردار ہے۔ دونوں تصورات کو یکجا کریں تو حضرت اقبال (رح ) مبلغِ اخلاقِ حسنہ نظر آتے ہیں۔ حضرت اقبالرح وہ مبلغ نہ تھے جن کیلئے ’’لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ‘‘ کا حکم قرآنی ہے۔ وہ اوروں کو تعلیم و تلقین کر کے خود ’’تَنْسُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے مصداق ہرگز نہ تھے۔ وہ مبلغ بالقول بھی تھے اور مبلغ بالعمل بھی تھے۔ ان کی زندگی کے شب و روز میں ہزارہا قرائن و شواہد موجود ہیں۔ ہزارہا مظاہر اخلاقِ حمیدہ موجود ہیں۔ یہ صرف خوش عقیدگی کے دعوے ہی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مظہر اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔