• صارفین کی تعداد :
  • 13733
  • 10/8/2016
  • تاريخ :

غدیر کے بعد عاشورا کیوں؟ ( حصّہ چہارم )

محرم

مگر کب تک خفیہ دشمنی کے انگارے دل میں، چھپے ہوئے خنجر آستین میں اور بارگاہ نبوت میں گستاخی کرنے والی تلوار منہ میں چھپ کر رہ سکتی تھی! جب مصلحت الہی نے مناسب سمجھا تو امر الہی سے حقیقی اولی الامر نے میدان میں قدم رکھ کر دشمن کی خفیہ آگ، منافقانہ خنجر اور توہین آمیز تلوار کو فاش کر دیا، لہذا دشمن "اِنّا نَقْتُلُکَ بُغْضاً لاَِبِیکَ[3]" (ہم تمہارے باپ سے دشمنی کی وجہ سے تمہیں قتل کرنے آئے ہیں) کہہ کر اپنی آتش عداوت کو ظاہر کر دیا، منافقت اس طرح زیرآستین چھپی ہوئی تھی کہ جب اظہار کا موقع ملا تو جس کو جو ملتا تھا، نواسہَ رسولؐ کو مارتا تھا اور جس کے پاس کچھ نہیں تھا وہ مٹی کی مٹھی پھینک کر اپنی منافقت دکھانے لگا، گستاخانہ تلواریں ایسے چلنے لگیں کہ سیدالشہدا٫ (علیہ السلام)  پر اپنے عزیزوں کی شہادت کے زخم ایک طرف سے اور دشمن کی زبان کی تلوار کے زخم دوسری طرف سے آپؑ پر ستم ظریفی کرتی رہیں۔
وہی دین جس کی تکمیل اللہ نے غدیر خم میں کی تھی، رفتہ رفتہ غاصبان خلافت نے اس میں اتنی بدعتیں شامل کر لیں کہ قرآن کے الفاظ اور ظاہر کے علاوہ کچھ نہ رہا، اسلام کے نام پر مختلف ذاتی اغراض کو دین کا حصہ بنا دیا گیا، شریعت کے متعدد اعمال میں من گھڑت حصے شامل کر دیئے گئے، نماز، روزہ، حج، زکات اور دیگر شرعی احکام میں کمی بیشی لا کر اس کی حقیقت کو بدل دیا گیا اور بعض حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا گیا اور اسلام کے نام کو صرف اس لیے باقی رکھا گیا کہ لوگوں کو دین میں تخریب کاری نظر نہ آنے پائے، یعنی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو بالکل برباد کرنے کی مکمل کوشش کی گئی، یہاں تک کہ قرآن کریم کی تفسیر اپنی مرضی سے کرنے لگے، اپنے مفاد کی باتیں کرکے ان باتوں کی نسبت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیتے ہوئے جعلی حدیثیں بنانے لگے اور ولایت غدیر کو بالکل طاق نسیان پر رکھ دیا، اسی لیے حقیقی اسلام کے تحفظ کے لئے حسین ابن علی (علیہما السلام) کھلم کھلا دشمن کے سامنے آ گئے اگرچہ اس عظیم تحفظ کے لئے بیت عصمت کو طرح طرح کے تشدد اور اسلام کے معصوم محافظوں کو ظلم و ستم کے گرتے ہوئے پہاڑوں کو برداشت کرنا پڑا۔ اسلام کی بنیادوں کا کھوکھلا ہونا اور دین پر ہر طرف سے باطل کی یلغار اتنی بڑھ چکی تھی کہ جیسے دین کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیرالمومنین (علیہ السلام) کا بازو پکڑ کر سب کو دکھایا اور اعلان ولایت کیا تھا اسی طرح مظلوم کربلا نے اپنا سر اللہ کی راہ میں بر سر نیزہ دے کر دین اسلام کا تحفظ کر لیا اور اپنی حیات طیبہ کے آخری وقت میں "ھل من ناصر ینصرنی"[4] کی صدا بلند کرتے ہوئے حیوانی نیند میں سونے والی بشریت کی کروٹ بدل دی، رہتی دنیا کو غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا، باطل کے سامنے جھکنے والی اقوام کو حق کے لئے قیام کرنا سکھا دیا، اپنا خون دے کر باطل کی کمر توڑ دی  اور زمانہَ جاہلیت کی طرف پلٹتے ہوئے لوگوں کا رخ حقیقی اسلام اور ولایت غدیر کی طرف موڑ کر موت کے گھاٹ اترتی ہوئی انسانی ارواح میں ابدی روح حیات پھونک دی کہ حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: "این محرم و صفر است کہ اسلام را زندہ نگہ داشتہ است"،  "یہ محرم اور صفر ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے"۔
نتیجہ: جو دین اسلام، غدیر خم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان ولایت سے مکمل ہوگیا تھا اور سب لوگوں کےلئے حجت تمام ہو گئی تھی، آنحضرت کے بعد اس دین میں منافقین کے ذریعے بدعتیں داخل کی گئیں تاکہ رفتہ رفتہ اسلام کی بنیاد کو کاٹ دیں! امام حسین (علیہ السلام) کے زمانہ میں اسلام کی نشانیاں اتنی مٹ گئی تھیں کہ قیام کرنا ضروری تھا ورنہ اسلام صفحہ دہر سے بالکل مٹ جاتا، لہذا غدیر میں جس اسلام کو اللہ تعالی نے ولایت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ذریعہ مکمل کیا تھا اس اسلام کو امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے قیام کے ذریعہ محفوظ کیا بقا دیدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ مائدہ، آیت 3۔
[2] سورہ مائدہ، آیت 67۔
[3] ينابيع المودّة، ج 3، ص 79-80.
[4] أمالی صدوق، ص 136 و 137۔