• صارفین کی تعداد :
  • 3426
  • 5/9/2016
  • تاريخ :

حسن سلوک اور مہربانی 

حضرت علی مرتضی

 قرآن مجید رسول اللہ ۖکی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اور مہربانی وعطوفت بیان کر تا ہے ، آپۖ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہو تا ہے۔
''فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ''٢٧
''پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہو تے تو یہ لو گ آپ ۖ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے ''
حضرت علی ـ آنحضرتۖ کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
''وَاَطْهرَ المُطَهرِينَ شِيمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِينَ دِيمَةً ''٢٨
''عادات کے اعتبار سے آپۖ تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور بارا ن رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے ۔''
لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
 قران مجید نے اپنی دو آیتوں میں رسول خدا ۖکی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
''لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيز عَلَيه مَا عَنِتُّمْ حَرِيص عَلَى کُمْ بِالْمُوْمِنِينَ رَئُ وْف رَّحِيم '' ٢٩
''فَلَعَلّکَ بَا خِع نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهمْ اِنْ لَّمْ يوْ مِنُوْا بِهذَا الْحَدِيثِ اَسَفاً'' ٣٠
حضر ت علی ـ نہج البلاغہ میں ذکر کرتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں
ہا تھ پائوں مار رہے تھے ،نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اورجہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ''
''فَبَالَغَ صلی الله عيله وآله وسلَّم فِی النَّصِيحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّريقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ''٣١
''چنانچہ نبی اکرم ۖنے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے ''
آنحضرت ۖ ایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جا تے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کر تے تھے
اس بارے میں امیر المومنین ـ نے فرمایا :
''طبیب دَوَّاربِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اهمَه ،وَاَحْمَیٰ مَوَا سِمَه يضَعُ ذٰلِکَ حَيثُ الحَاجَةُ اِلَيه ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ ،وَآذانٍ صُمٍّ،وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحَيرَةِ''٣٢
''آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ،وہ اندھے دلوں ،بہرے کانوں گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ )میں جہاں ضرورت ہو تی ہے ،ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہو ئوں کی کھوج میں لگا رہتا ہو ۔'' ( جاری  ہے )

 


متعلقہ تحریریں:

اونٹوں کي تقسيم اور حضرت علي عليہ السلام

علم رياضي اور علم نجوم کا مسئلہ