• صارفین کی تعداد :
  • 380
  • 3/30/2016
  • تاريخ :

8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت حصہ آخر

8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت حصہ آخر


جرثوموں کا حملہ
مائیکل کریکٹون کے 1969 میں شائع ہونے والے ناول پر 1971 میں ایک فلم دی اینڈرومیڈا اسٹرین تیار کی گئی اور 2008 میں ایک ٹی وی سیریز بھی نشر ہوئی، جس کی کہانی میں دکھایا گیا تھا کہ ایک سیٹلائٹ ایری زونا کے قریب ایک چھوٹے قصبے میں گرتا ہے جس سے ایسے جرثومے تیزی سے پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں جو دوران خون کو گاڑھا کرکے انہیں لوتھڑا بنادیتے یا انسان کو دیوانگی کا شکار کردیتے۔
تو کیا خلاء سے کسی طرح کا وائرس زمین کے باسیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ تو اچھی خبر تو یہ ہے کہ ابھی تک ایسے شواہد تو کہیں نہیں ملے کہ زمین سے ہٹ کر کہیں بیکٹریا یا وائرس وغیرہ پائے جاتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ خلاء کو دریافت کرنے والے ماہرین کو اس کا حقیقی خطرہ درپیش ہے۔
ماہرین کے خیال میں انسانی جسم زمینی امراض کے خلاف تو اپنے اندر دفاع کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے مگر ایک خلائی وائرس چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو درحقیقت انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات کے تو خیال میں ایسا ہو بھی چکا ہے جب شہاب ثاقب کی دھول کے نتیجے میں لوگ بیمار ہوئے اور اسپینش فلو کی وباء پھیل گئی جس کے نتیجے میں 1918 میں کم از کم دو کروڑ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
عالمی قحط
کرسٹوفر نولان کی 2014 میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن فلم انٹرسٹیلر میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا سے خوراک کا خاتمہ ہونے لگتا ہے اور مٹی کے طوفان زمین کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نظام شمسی پر نیا سیارہ ڈھونڈنے کی مہم شروع ہوتی ہے جہاں انسانوں کو بسایا جاسکے۔
یہ تو بیشتر لوگوں کو معلوم ہے کہ مٹی کے طوفان یا آندھی فصلوں کو سنگین نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں مگر ایسا بڑے رقبے پر نہیں ہوتا تو کیا ایسا عالمگیر سطح پر ممکن ہے؟
تو جان لیں کہ بہت بڑے مٹی کے بگولے پہلے ہی چین اور شمالی افریقہ کے کچھ حصوں میں تباہی مچا رہے ہیں جبکہ ایک ہی جگہ جانوروں کے حد سے زیادہ چرنے کے باعث زرعی زمین بنجر ہوکر رہ جاتی ہیں۔
آبادی میں اضافے کے نتیجے میں خوراک کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اور ہمارے خوراک کے وسائل میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے بغیر مٹی کے طوفان بدترین شکل اختیار کرکے دنیا بھر میں پھیل جائیں گے اور کھانے کی اشیاء کی پیداوار مزید کم ہوجائے گی۔
الیکٹرو میگنیٹک (برقی مقناطیسی) دھڑکن
یہ 2012 کی بات ہے جب ریوولوشن نامی ایک ٹی وی سیریز میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا میں چلنے والی تمام برقی مصنوعات اچانک کام کرنا بند کردیتی ہیں اور ہر چیز بند ہوجاتی ہے اور پھر کبھی نہیں چلتی۔
ایسا ہوتے ہی دنیا بھر میں معاشرے اور حکومتیں منہدم ہوجاتی ہیں اور دنیا 19 ویں صدی کے زمانے میں واپس پہنچ جاتی ہے اور زندگی کا خاتمہ ہونے لگتا ہے۔
خوفناک امر یہ ہے کہ یہ کوئی افسانوی خیال نہیں بلکہ ایسا بالکل ممکن ہے اور دو طریقوں سے برقی مصنوعات کو ہمیشہ کے لیے روکا جاسکتا ہے، ایک تو برقی کسی جوہری ہتھیار کو زمین کے مدار میں پھاڑنے کے نتیجے میں برقی مقناطیسی دھڑکن تھم سکتی ہے اور اس کے لیے کسی بہت زیادہ طاقت کے وارہیڈ کی بھی ضرورت نہیں۔
دوسرا طریقہ قدرتی ہے جو شمسی طوفانوں کے نتیجے میں زمین کو نشانہ بناسکتا ہے جس سے جوہری دھماکے جیسے ہی اثرات مرتب ہوں گے اور زمین کے متعدد حصے مہینوں یا برسوں تک بجلی سے محروم ہوسکتے ہیں۔
اس وقت انسان بجلی کا بہت زیادہ عادی ہوچکا ہے اور ہر چیز ہی الیکٹریکل گرڈ سے منسلک ہے اور اس پر پڑنے والے اثرات شہری آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے زندگی کا ہر شعبہ ہی متاثر ہوگا جیسے بینکنگ، مواصلات اور بنیادی اشیاء جیسے پانی و خوراک کا حصول وغیرہ۔
یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے کہ امریکی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے 2004 اور 2008 میں اپنی رپورٹس جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ہونے کی صورت میں نوے فیصد امریکی شہری امرض، قحط اور معاشرے کے منہ کے بل گرنے سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔
ختم ہوا۔