• صارفین کی تعداد :
  • 4453
  • 3/9/2016
  • تاريخ :

 مٹی سے بنی لمبی ترین دیوار ( حصّہ دوّم )

مٹی سے بنی لمبی ترین دیوار ( حصّہ دوّم )

زمانہ قدیم میں شہروں پر حملوں کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے طور پر خندق کی کھدائی کی جاتی تھی ۔ اس شہر کے گرد بھی ایک بڑی خندق کھودی گئی تھی جس کی وجہ سے شہر پر آسانی کے ساتھ قابض ہونا ممکن نہیں تھا ۔ اس خندق کی چوڑائی 50 میٹر جبکہ اس کی گہرائی 10 میٹر کے قریب ہوا کرتی تھی ۔ اس خندق میں پانی چھوڑ دیا جاتا تھا اور پانی کے اندر ایسے پودے لگاۓ گۓ تھے جو اس پانی میں تیرنے والوں کے ساتھ چپک جایا کرتے تھے اور یوں باہر سے حملہ آوروں کے لیۓ تیر کر اس خندق کو عبور کرنا مشکل ہو جاتا تھا ۔ اس خندق میں پانی چھوڑنے کے لیۓ قریبی رودخانوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور اس خندق کے نزدیک ترین رودخانوں میں " رود بال " سب سے اہم تھا ۔
دارابگرد شہر کی مٹی سے بنی یہ سب سے لمبی اور سب سے چوڑی دیوار جو کہ 2500 سال پرانی ہے ، اب بھی بین الاقوامی ورثے میں درج نہیں ہے اور ماہرین کے مطابق اس تاریخی مقام کو نہ صرف یونیسکو  کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیۓ بلکہ گینس بک آف ورلڈ میں درج ہونے کے لیۓ بھی اس تاریخی مقام میں تمام خصوصیات موجود ہیں اور اس کےلیۓ کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ اس ھخامنشی شہر کی دیوار 6 کلومیٹر لمبی ہے ۔
دشت میں واقع اس شہر کا نمکی گنبد دور سے بڑا واضح دکھائی دیتا ہے ۔ یہ نمکی پہاڑ ، شہر کا مرکزی تاریخی حصّہ ہے جس کے اطراف میں گول دیوار موجود ہے ۔ فارس صوبے میں واقع یہ علاقے زمین شناسی اور تاریخ شناسی کے دیوانوں کے لیۓ بہترین مقام ہے۔
زمین شناسی کے لیۓ استعمال ہونے والے نقشے میں یہ نمکی گنبد ایک سرخ رنگ کے دائرے کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے اور فضا سے کھینچی جانے والی تصاویر اور سیٹیلائٹ سے لی جانے والی تصاویر میں ایک چوٹی مانند دکھائی دیتا ہے جس کے گرد ایک وسیع میدان واقع ہے ۔
مورخین کے مطابق چھٹی صدی ہجری قمری تک یہ شہر بہت آباد اور پررونق ہوا کرتا تھا لیکن داخلی انتشارات اور بیرونی حملوں کی وجہ سے یہ شہر ویران ہو گیا  اور یوں یہاں کے باسیوں نے یہاں سے نقل مکانی شروع کر دی ۔ آج کے دور کا شہر داراب ، پرانے  شہر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے ۔


متعلقہ تحریریں:

صوبہ يزد

ملا صدرا کا تاريخي گھر