• صارفین کی تعداد :
  • 8005
  • 3/10/2016
  • تاريخ :

شفاعت کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحیم


مشرکین بتوں کو مالکیت اور حاکمیت میں خدا کا شریک قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ جب خدا کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو یہی بت اس کی مدد کرتے ہیں! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
(8)
”اور کہو کہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہیں جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے( اور مدد گار )اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کا سر پرست ہے اور پھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو“۔
آیت کے تینوں جملوں میں سے ہر جملہ بت پرستوں کے ایک عقیدہ کی نفی کرتا ہے کہ ”فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے “ (توجہ رہے کہ ”ولد“ بیٹے اور بیٹی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے) (9) اور ان کو خلقت میں” شریک“ نیز ان کو خدا کا” مددگار“ مانتے تھے!
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے تمام مقامات پر بت پرستوں کو ”مشرکین“ اور ان کے اعمال کو ”شرک“ کے عنوان سے یاد کیا ہے، اگر وہ لوگ ”خدا “اور ”بتوں“ کے درمیان کسی شرک کے قائل نہ تھے اور ان بتوں کو صرف خدا کی بارگاہ میں شفیع مانتے تھے، تو قرآن کریم کے یہ الفاظ صحیح نہیں ہیں(معاذ اللہ)، ”شرک اور مشرک“ کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ بتوں کو خدا کی ربوبیت یا حل مشکلات یا خلقت وغیرہ میں شریک قرار دیتے تھے، (البتہ پتھر یا لکڑی کے بت ان کی نظر میں صالح اور فرشتوں کا نمونہ تھے)
دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ لوگ بتوں کے لئے تدبیرِ جہان میں ایک طرح کے استقلال کے قائل تھے، اور ایک طرح سے خدا کے برابر قرار دیتے تھے، نہ فقط بارگاہ خدا میں واسطہ۔
خصوصاً قرآن کریم کی مختلف آیات میں بہت سے ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: (10) ”اور اس کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست اور مددگار بھی نہیں ہے“۔
یہ بت پرستوں کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ بتوں کو اپنا ولی و ناصر مانتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: (11)”اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر سرپرست بنا یا ہے،کوئی کام آنے والا نہیں ہے“۔
قرآنی آیات میں متعدد بارمشرکین کے بارے میں ”من دون الله“ کا جملہ استعمال ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے علاوہ دوسری موجودات (بتوں، درختوں اور پتھروں) کی عبادت کیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ولی و ناصر اور مددگار ہوں، یہ وہی ” ربوبیت میں شرک“ ہے نہ کہ شفاعت۔
المختصر: قرآن کریم کی طرف سے مختلف آیات میں مشرکین پر دو اعتراض ملتے ہیں : پہلا اعتراض یہ لوگ ایسی موجودات کو مبدا اثر قرار دیتے ہیں جو نہ سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی ان میں عقل و شعور پایا جاتا ہے، اور دوسرے: یہ لوگ خدا کی تد بیر کے مقابل بتوں کے لئے”ربوبیت“ کے قائل تھے۔
البتہ زمانہٴ جاہلیت کے بت پرستوں کی باتیں ضد و نقیض ہوتی تھیں، ایسا نہیں تھا کہ ایک منطقی انسان کی طرح اپنی باتوں کو بغیر کسی تضاد اور ٹکراو کے بیان کرتے ہوں، اگرچہ وہ بتوں کو مشکلات کے حل کے لئے خدا کا شریک قرار دیتے تھے اور ان کو ”من دون الله“ خدا کے علاوہ اپنا ناصر و مددگار تصور کرتے تھے، لیکن کبھی کبھی بتوں کو خدا کے نزدیک شفاعت کرنے والا بھی قرار دیتے تھے،اور یہ بات ہرگز شرک افعال پر اعتقاد کی دلیل نہیں ہے، یہ مطلب تمام قرآنی آیات کی تحقیق اور کفار و مشرکین کے تمام حالات سے حاصل ہوتا ہے، اس کے علاوہ وہ لوگ شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف نہیں جانتے تھے۔
(قارئین کرام!) ان تمام باتوں کے پیش نظر ،یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اگر انسان صرف اور صرف اولیاء اللہ کو شفیع قرار دے (نہ کہ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو) اور صرف ان کو خدا کی بارگاہ میں ”شفیع“ مانے (نہ خدا کی ولایت اور تدبیر میں شریک ) نیز ان کی شفاعت کو خدا کی اجازت پر موقوف مانے (نہ مستقل طور پر) اس صورت میں شفا عت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مشکل اس وقت پیدا ہوگی جب ان تینوں اصول میں سے کسی ایک یا تینوں کو نظر انداز کردیا جائے، اور غلط راستہ کا انتخاب کیا جائے۔(12)
حوالہ جات:
(1) سورہٴ یونس ، آیت۳۱ (2)سورہٴ یونس ، آیت۱۸
(3)سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(4) ”رسالہ ا ربع قواعد“ تالیف: محمد بن عبد الوہاب ، بانی وہابیت، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک، کشف الارتیاب سے نقل کیا ہے، صفحہ۱۶۳
(5) الھدیة السنیة ، صفحہ ۶۶
(6) سورہٴ زمر ، آیت ۳
(7) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۶۵
(8)سورہٴ فاطر ، آیت ۴۰
(9)سورہٴ اسرا ، آیت ۱۱۱
(10) ولد مولود کے معنی میں ہے، اوربڑ ے ،چھوٹے ،لڑکا ،لڑکی ،مفرداور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے، (دیکھئے: مفردات راغب)
(11) سورہٴ عنکبوت ، آیت ۲۲ (71)سورہٴ جاثیہ ، آیت ۱۰
(12) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۶، صفحہ ۵۳۶

 


متعلقہ تحریریں:

غدير خم اور لفظ " مولا "

مولا کا مفہوم امام سے اعلي  ہے