• صارفین کی تعداد :
  • 8579
  • 3/2/2016
  • تاريخ :

جوانوں کی رہنمائی

مسلمان نوجوان

لہٰذا اسی وجہ سےدینی کتابوں کا پڑھنا عقائد کی راہ میں علم میں اضافہ کرنے کا بہترین راستہ ہے علم و دانائی سے بے بہرہ شخص کبھی قادر نہیں ہو سکتا کہ اپنے متعلق احکام الٰہی کو سمجھے اور صحیح طریقے سے ان پر عمل کرے اور نتیجے میں شاید زندگی کا مطلب سمجھ نہ سکے ․
فکر کرنا : علم حاصل کرنا یعنی دوسروں کی فکر سے استفادہ کرنا ہے جو کتاب وغیرہ کے صفحات پر تحریر ہے لیکن زندگی کے مراحل اور مختلف موقعوں پر ذاتی فکر یہی ہے جو راستہ اور راہ حل دکھا سکتی ہے ،دوسرے لفظوں میں اگر چہ تعلیم حاصل کرنے سے انسان کے سوچنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی بالندگی آتی ہے لیکن ہر فرصت اور نئے موقعہ اور موڑ پر سوچنا اور فکر کرنا ہی مناسب راہنما ہے جس کے ذریعہ حادثات اور مشکلات کا بہتر طور پر تجزیہ تحلیل کر سکتا ہے اور مناسب طریقے سے ان کا سامنا کر سکتا ہے ․
ایمان : ایان سے مراد خالق کائنات کے متعلق قلبی عقیدہ اور اسکے دستورات اور احکام پر دل سے عقیدہ اور پر سر تسلیم خم کر دینا ہے جس قدر ایمان قوی ہوگا اسی قدر زیادہ پہلوئں میں اس کا اظہار ہو گا اور انسان کے وجود میں تجلی پائے گا لہٰزا اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے امور میںخداوند عالم کو مد نظر رکھے گا اسکا اپنے اوپر اعتماد بڑھ جائے گا اور ایک قوی طاقت حاصل ہوگی جوہمیشہ اسکی پشت پناہ ہوگی ․
مثبت کام : اچھے کام انجام دینا ہمیشہ شخص کی موقعیت کی تقویت اور آسانی کا سبب ہوتاہے وہ بھی اسی طرح کے قرآن مجید میں نک اعمال کو رشد وکمال اور موٴمنو ں میں پوشیدہ اتعداد کی شکوفائی کے عنوان سے پہچان کرائی جاتی ہے ․
یہ جاننا بہتر ہے کہ دینی تعلیم کا نیک عمل نیز علم و ایما ن میں بہت زیادہ اثر ہوتا ہے لہٰذا اس بناء پر بہترین عمل یہ ہے کہ ہم اپنے احکام اور دینی وظائف کو انجام دیں اور دوسروں کو نیک کاموں کا شوق دلائیں اور برے کاموں سے بچائیں الٰہی احکام یعنی دینی وظائف پر عمل کرنا جیسے ترقی اور پیشرفت کرنے کے لئے ہمتو ں کو تقویت دیتا ہے اور زندگی میں خدا وند عالم کے وجود کے احساس کا تجربہ کراتا ہے ویسے ہی اصل ایمان نظر اور دینی پائیندی کو بھی بڑھاتا ہے انسان کی ذاتی نظر کو وسعت کرتا ہے اور زندگی کی مہم تبدیلیوں میں توکل اور اعتماد کے ساتھ بہترین اور صحیح صورت کو انتخاب اور مقصد تک پہچنے کا باعث ہوتا ہے ․
لہٰذا اب سب کو ملا کر نتیجہ لیتے ہیں :
ہم سب یہ جان لیں کہ اگر چہ جوانی کاحساس دور فکر و اندیشہ کے جوش میں آنے کا دور ہے لیکن چونکہ اس کے بنیادی ستون ابھی مضبوط نہیں ہوتے ہیں اس لئے بے شمار اعتراضات کی آماجگاہ قرار پاتا ہے اور اگر ہم مدد کریں کہ جوان مزید معلومات حاصل کرنے ،سوچنے اور نیک کام انجام دینے میں مصروف ہو جائے نیز اپنے کاموں میں خدا کو یاد رکھے تو دینی ، عقلی،اخلاقی، سماجی وغیرہ ترقی کی راہوں کو کامیابی سے طے کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے۔

 


متعلقہ تحریریں:

تنھائي ميں جديد احساسات

جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائدار ہو گا