• صارفین کی تعداد :
  • 4238
  • 11/7/2014
  • تاريخ :

ہدايت و آگہي کے علمبردار

ہدایت و آگہی کے علمبردار

پيغمبر اسلام (ص) کے بعد ان کے اہلبيت (عليہم السلام) ہميشہ ہدايت و آگہي کے علمبردار رہے ہيں اور کفر و نفاق کے گھٹائوپ اندھيروں ميں بھي مرسل اعظم (ص) کے اہلبيت (ع) نے اسلام و ايمان کي مشعليں روشن و منور رکھي ہيں ديں خواہي اور دنيا طلبي کے طوفاني دھاروں ميں انہوں نے ہميشہ دين و معنويت کي بنيادوں پر استوار دنيا کي طرف قافلۂ انسانيت کي رہنمائي کي ہے اور افراط و تفريط کے درميان عقل و فہم کي روشني ميں علم و معرفت کے گہرے اور کشادہ چشمے جاري کرکے زندگي کو توازن ، طلاطم اور دوام عطا کيا ہے -اسلام دين حق و اعتدال ہے اور اس کے تمام اصول و قوانين انساني فطرت سے ہم آہنگ ہيں اور جب بھي کفر و جہالت کے ديوتاوں نے اپنے غير انساني اہداف و مقاصد کے تحت قافلۂ بشريت کو راہ اعتدال سے منحرف کرنے کي کوشش کي ہے حق و انصاف کے علمبردار ، اہلبيت اطہار عليہم السلام نے جان و مال اور اولاد و اصحاب کي قربانياں ديکر توحيد و عدالت کے پرچم کو بلندي و سرافرازي عطا کي ہے اسي لئے خداوند عالم نے اپني کتاب محکم ميں بھي مختلف انداز سے اہلبيت (ع) کا تعارف کرايا اور رسول اعظم (ص) نے بھي جگہ جگہ اپنے اہلبيت (ع) کي عظمت و جلالت کا قصيدہ پڑھا آيۂ تطہير نازل ہوئي تو علي (ع) و فاطمہ (ع) اور حسين (ع) کو چادر ميں لے کر فرمايا " اللّہمّ ہولاء اہل بيتي فاذہب عنہم الرّجس و طہّرہم تطہيرا" " خدايا يہي ميرے اہلبيت (ع) ہيں ان کو ہر قسم کي آلائش سے پاک و پاکيزہ قراردے آيۂ مباہلہ آئي تو نصارا کے خلاف " انفسنا" کي جگء علي (ع) کو "نساءنا" کي جگء فاطمہ (ع) کو اور " ابنائنا " کي جگہ امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) کو ساتھ لے گئے اور عيسائيوں کے مقابل فتحياب ہوئے -آيۂ مودت نازل ہوئي اور اصحاب نے پوچھا آپ کے قربي " اور اہلبيت (ع) کہ جن کي محبت ہم پر واجب کي گئي ہے کون ہيں ؟ تو رسول اسلام (ص) نے فرمايا : علي (ع) و فاطمہ (ع) اور ان دونوں کے دونوں فرزند حسن (ع) و حسين (ع) بزم اصحاب ميں بار بار اہلبيت (ع) کي پہچنوايا خاص طور پر امام حسين عليہ السلام کا لوگوں سے تعارف کرايا کہ ہذا حسين فاعرفوہ يہ حسين (ع) ہے اس کو پہنچان لو -" حسين مني و انا من الحسين " حسين (ع) مجھ سے ہے اور ميں حسين (ع) سے ہوں -احبّ اللہ من احبّ حسينا جو حسين (ع) سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے چنانچہ امام حسين (ع) کي شخصيت سے رفتار و کردار کي جو شعاعيں پھوٹي ہيں آج بھي اسلام و ايمان کي فکري ، اعتقادي اور تہذيبي حيات کي اساس ہيں اور حسينيت کي مشعل سے پورا عالم بشريت فروزاں ہے -

بندگي اوربندہ پروري کا عالم يہ تھا کہ سجدۂ معبود ميں سرکٹانے والے حسين (ع) کے بارے ميں ايک معتبر راوي شعيب ابن عبدالرحمن کا بيان ہے کہ روز عاشورا لوگوں نے امام (ع) کي پشت پر گٹھے ديکھے تو امام زين العابدين سے اس کي وجہ پوچھي اور امام سجاد (ع) نے فرمايا : " يہ نشان بيواوں يتيموں اور مسکينوں کے گھروں تک نان و خرمہ پيٹھ پر لاد کر لے جانے کے سبب ہے " شافعي مسلک کے عالم ابن کثير نے لکھا ہے کہ " پيغمبر اسلام (ص) کے بعد خلفائے ثلاثہ بھي ان کا احترام کرتے تھے وہ اپنے والد کے صحابيوں ميں شامل تھے اور ان سے حديثيں روايت کرتے تھے ، سب ان سے عشق و محبت کرتے کيونکہ وہ پيغمبر (ص) کے فرزند تھے اور روئے زمين پرکوئي حسين (ع) کے جيسا نہ تھا " چنانچہ امام حسين (ع) نے بھي اپنے نانا کے دين کے لئے اپنا جو کچھ بھي تھا نثار کرديا اور فديناء بذبح عظيم کا مصداق بن گئے -علامہ اقبال نے اسي لئے کہا ہے :

حقيقت ابدي ہے مقام شبيري                        بدلتے رہتے ہيں انداز کوفي وشامي


متعلقہ تحریریں:

ماہ محرم

واقعہ عاشورہ ، انسانيت کے لئے عظيم سرمايہ