• صارفین کی تعداد :
  • 4222
  • 11/4/2014
  • تاريخ :

واقعہ عاشورہ ، انسانيت کے لئے عظيم سرمايہ(حصہ دوم)
واقعہ عاشورہ ، انسانیت کے لئے عظیم سرمایہ(حصہ دوم)

باني انقلاب اسلامي حضرت امام خميني (رح) فرماتے ہيں:اس گريہ و زاري اور نوحہ و ماتم کے ذريعے ہم حسيني مکتب کا تحفظ کرنا چاہتے ہيں جيسا کہ اب تک کرتےآئے ہيں-

مکتب اسلام اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي تعليمات کا تحف1 اہل بيت کي ثقافت کو زندہ رکھنے کے ذريعے کيا گيا ہےاور اس لحاظ سے کہ ظالم حکمرانوں نے پيہم اس ثقافت کو محو اور نيست و نابود کرنے کي کوشش کي ہے اس لئے مظلوم کربلا کي عزاداري نے خود بہ خود سياسي اور جہادي رنگ اختيار کرليا ہے-عزاداري اور گريہ ميں سياسي پہلو، ظلم و ستم مخالف جذبے کو زندہ رکھنا ہے-

مکتب عاشورا ميں عبادت کو اسلامي معاشرے کے معنوي و اخلاقي فضائل اور ديني تعليمات ميں سر فہرست قرار ديا گيا ہے- مسلمانوں کي عزت و سربلندي ان کے ايمان اور معنويت کي مرہون منت ہے - کربلا ميں امام حسين عليہ السلام کا قيام، اسلامي معاشرے کو درپيش خطرے يعني اسلامي اصول و اقدار کا تحفظ کرنا تھا- شيعوں کي ثقافت ميں مذہبي پيشواوں اور خاص طور پر امام حسين عليہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کي مجالس اور عزاداري کا انعقاد، عبادت ہے - کيوں کہ عزاداري، معنويت ميں فروغ کا باعث ہوتي ہے اور انسان کو انسانيت کے اعلي ترين مدارج تک پہنچانے ميں مدد ديتي ہے- امام حسين عليہ السلام پر گريہ و زاري اور حزن واندوہ، باطني تغير وجود ميں آنے اور اس کے ساتھ ہي انسان کے روحاني کمال کا باعث ہوتا ہے -اور اس سے انسان ميں تقوي اور انسان کو خدا سے نزديک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہيں-اسي طرح، عوام بھي اس مظلوم کے ساتھ، جو عقيدے کي راہ ميں موت کو سعادت اور ستمگر کے ساتھ سازش کو باعث ننگ و عار قرار ديتا ہے، اپني وفاداري کا اعلان کرتے ہيں اور ظلم کے خلاف جد و جہد کرنے اور ظالموں سے کوئي ساز باز نہ کرنے کو اپنا شعار بناتے ہيں - اور يہي وفادارياں ہي ہيں جو قوموں کو، استعمارگروں کے حرص و طمع کے مقابلے ميں بيمہ کرتي ہيں اور سامراج کے اثرو رسوخ کي راہيں مسدود کرديتي ہيں-

تاريخ، عبرت آموز نکات سے بھري پڑي ہے اور اگر ان نصيحتوں پر توجہ نہ کي جائے تو تاريخ کے ان ہي تلخ واقعات کا ايک بار پھر اعادہ ہوگا - جيسا کہ قرآن مجيد ميں حضرت يوسف عليہ السلام اور ان کے بھائيوں کے حالات زندگي بيان کرنے کے بعد ارشاد ہورہا ہے کہ" ان کي سرنوشت ميں صاحبان فکر کے لئے درس عبرت ہے -اور حضرت علي عليہ السلام عبرت حاصل کرنے کے بارے ميں فرماتے ہيں "دنيا کے ماضي سے، مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو"- اس بناء پر تاريخ کے جملہ واقعات و حوادث ميں سے ايک، کہ جو بہت سي عبرتوں کا سرچشمہ ہے، عاشورا کا جاں گداز واقعہ ہے - عزاداريوں کا انعقاد، واقعات عاشورا کو دوبارہ بيان کرنے کے لئے ہوتا ہے تاکہ حاضرين اور آئندہ نسلوں کے لئے عبرت و نصيحت حاصل کرنے کا ذريعہ قرار پائے-

رہبر انقلاب اسلامي حضرت آيۃ اللہ العظمي خامنہ اي کے نقطۂ نگاہ سے عزاداري اور مصائب اہل بيت اطہار عليھم السلام ايک خداداد نعمت ہے کہ جو بارگاہ خداوندي ميں شکريے کے شايان شان ہے - ان کے نقطۂ نظر سے تحريک عاشورا کا پيغام، اسلامي تحريکوں کا فروغ ہے اور اس نعمت کے حساس ہونے کو ہم اس وقت درک کرتے ہيں جب ہم جان ليں کہ خدا کي نعمتوں کے مقابلے ميں بندگان خدا کي ذمہ داري شکر و سپاس اور اس کي بقا کي کوشش کرنا ہے- رہبر انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ايک مرتبہ اگر کسي کے پاس نعمت نہ ہوتو اس سے کوئي سوال نہيں کيا جائے گا ليکن جس کے پاس نعمت ہے اس وقت اس سے سوال کيا جائے گا - شيعوں کے لئے ايک عظيم نعمت، محرم ،عاشورا اور مجالس عزا ہے- يہ عظيم نعمت، دلوں کو اسلام و ايمان کے ابلتے ہوئے چشمے سے متصل کرتي ہے - اس نعمت نے وہ کام کيا ہے کہ تاريخ کے دوران ظالم حکمرانوں، کو عاشورا اور قبر امام حسين عليہ السلام سے خوف لاحق رہا ہے-اس نعمت سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے - خواہ وہ عوام يا علماء، اس نعمت سے ضرور بہرہ مند ہوں - عوام اس طرح سے بہرہ مند ہوں کہ ان مجالس سے دل وابستہ کرليں اور مجالس امام حسين عليہ السلام کا انعقاد کريں- لوگ عزاداري کا اہتمام مختلف سطح پر زيادہ سے زيادہ کريں -کربلا کا واقعہ تاريخ بشريت کے لئے ايک درس ہے اور اس سے وابستگي بھي مسلمانوں حتي حريت پسند غير مسلموں کے لئے بھي ہر دور ميں سعادت رہي ہے -(ختم شد)


متعلقہ تحریریں:

جلتے ہوئے خيموں سے امام سجاد (ع) کي حفاظت

امام حسين (ع) کي لازوال تحريک