• صارفین کی تعداد :
  • 4222
  • 10/11/2014
  • تاريخ :

حديث غدير کي سنديت و دلالت (حصہ پنجم)

حدیث غدیر کی سندیت و دلالت (حصہ پنجم)

اس وقت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نےتکبير کہي اور فرمايا: اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئين اور نعمتوں کو پورا کيا اور ميرے بعد علي عليہ السلام کي وصايت و جانشيني سے خوشنود ہوا-

اس کے بعد پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بلندي سے نيچے تشريف لائے اور حضرت علي عليہ السلام سے فرمايا کہ:”‌ جاو خيمے ميں جاکر بيٹھو، تاکہ اسلام کي بزرگ شخصيتيں آپ کي بيعت کرتے ہوئے مبارکبادپيش کريں-

سب سے پہلے شيخين (ابوبکر و عمر) نے حضرت علي عليہ السلام کو مبارکباد پيش کي اور ان کو اپنا مولا تسليم کيا- حسان بن ثابت نے موقع سےفائدہ اٹھايا اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اجازت سے ايک قصيدہ کہہ کر پڑھا،يہاں پر اس قصيدے کے صرف دو اہم اشعا ر بيان کر رہے ہيں:

فقال لہ قم يا علي فانني

رضيتک من بعدي اماماً و ہادياً

فمن کنت مولاہ فہٰذا وليہ

فکونو لہ اتباع صدق مواليا

ترجمہ: (رسول اللہ (ص) نے) علي عليہ السلام سے فرمايا :”‌ اٹھو ميں نے آپ کو اپني جانشيني اور اپنے بعد لوگوں کي امامت و راہنمائي کے لئے منتخب کرليا-

جس جس کا ميں مولا ہوں اس اس کے علي مولا ہيں-

تم،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو، بس ان کي پيروي کرو- [16]

يہ حديث علي عليہ السلام کي تمام صحابہ پر فضيلت اور برتري کي بھي سب سے بڑي دليل ہے-

يہاں تک کہ امير المومنين عليہ السلام نے مجلس شورائے خلافت ميں (جوکہ دوسرے خليفہ کي وفات کے بعد منعقد ہوئي) [17] اور عثمان کي خلافت کے زمانے ميں اور اپني خلافت کے دوران بھي اس پر احتجاج و استناد کيا-

اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ عليہا جيسي عظيم شخصيت نے بھي حضرت علي عليہ السلام کي والا مقامي سے انکار کرنے والوں کے سامنے، اسي حديث سے استدلال کيا-

 

موليٰ سے کيا مراد ہے؟

يہاں پر سب سے اہم مسئلہ موليٰ کے معني کي تفسير ہے جو کہ وضاحت ميں عدم توجہ اور لاپرواہي کا نشانہ بني ہوئي ہے کيونکہ اس حديث کے بارے ميں جو کچھ بيان کياگيا ہے اس سے اس حديث کي سندکے قطعي ہونے ميں کوئي شک و ترديد باقي نہيں رہ جاتي، لہٰذا بہانہ تراشنے والے افراد اس حديث کے معني و مفہوم ميں شک و ترديد پيدا کرنے ميں لگ گئے، خاص طور پر لفظ موليٰ کے معني ميں، مگر اس ميں بھي کامياب نہ ہوسکے-

صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ موليٰ اس حديث ميں بلکہ اکثرمقامات پر ايک سے زيادہ معني نہيں ديتا اور وہ "اولويت اور شائستگي" ہے دوسرے الفاظ ميں موليٰ کے معني "سرپرستي" ہے قرآن ميں بہت سي آيات ميں لفظ موليٰ سرپرستي اور اوليٰ کے معني ميں استعمال ہواہے-

قرآن کريم ميں لفظ موليٰ 18 آيات ميں استعمال ہوا ہے جن ميں سے دس مقامات پر يہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے- ظاہر ہے کہ اللہ کي مولائيت اس کي سرپرستي اور اولويت کے معني ميں ہے-

لفظ موليٰ بہت کم مقامات پردوست کے معني ميں استعمال ہوا ہے- اس بنيادپر موليٰ کے معني ميں درجہ اول ميں اوليٰ، ہونے ميں کوئي شک و ترديد نہيں کرني چاہئے-

حديث غدير ميں بھي لفظ مولا اولويت کے معني ميں ہي استعمال ہوا ہے- اس کے علاوہ اس حديث کے ساتھ بہت سے ايسے قرائن و شواہد ہيں جو اس بات کو ثابت کرتے ہيں کہ يہاں پر مولا سے مراد اولويت اور سرپرستي ہي ہے- (ختم شد)

 

حوالہ جات:

[16] حسان کے اشعار بہت سي کتابوں ميں نقل ہوئےہيں ان ميں سے کچھ يہ ہيں :مناقب خوارزمي،ص/ 135،مقتل الحسين خوارزمي،ج/ 1،ص/ 47،فرائد السمطين ج/ 1،ص/ 73 و 74،النور المشتعل،ص/ 56،المناقب کوثر ج/ 1،ص/ 118 و 362

[17] يہ احتجاج جس کو اصطلاح ميں”‌ مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذيل کتابوں ميں بيان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزميحنفي ص/ 217،فرائد السمطين حمويني باب/ 58،الدر النظيم ابن حاتم شامي،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلاني ص/ 75، امالي بن عقدہ ص/ 7 و 212، شرحنہج البلاغہ ابن الحديد ج/ 2 ص/ 61، الاستيعاب ابن عبد البر ج/ 3،ص/ 35،تفسير طبري ج/ 3 ص/ 418،سورہ مائدہ کي 55 آيہ کے تحت


متعلہ تحريريں:

حديث غدير

غدير خم پر دلائل

عيد غدير کس طرح منائيں؟