• صارفین کی تعداد :
  • 8735
  • 8/20/2014
  • تاريخ :

از خود ادويات کا استعمال

از خود ادویات کا استعمال

صحت اور بيماري  (حصہ اول) 

وادي کشمير کره ارض پر ايک ايسي جگہ ہے جہاں سب سے زيادہ لوگ ازخود (يعني ماہر ڈاکٹر کا مشورہ لئے بغير) ادويات استعمال کرتے ہيں- يہاں کي Drug Policy اور ڈرگ قوانين کے اطلاق کا حال يہ ہے کہ کوئي بھي شخص کسي ڈاکٹري نسخے کے بغير کوئي بھي دوائي حاصل کر سکتا ہے- اتنا ہي نہيں بلکہ کچھ لوگ بيماري کي حالت ميںنيم تربيت يافتہ نيم حکيم ادويات فروشوں کے مشورے پر عمل کرکے ادويات ليتے ہيں-اس طرح يہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو خطرے ميں ڈال ديتے ہيں بلکہ اپني صحت کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس نعمت کي ناشکري کے مرتکب بھي ہوتے ہيں- ''نيم حکيم خطره جان اور نيم ملا خطره ايمان ''ايک پراني کہاوت ہے- اس کہاوت سے يہ بات صاف ہوجاتي ہے کہ جس طرح ايک انسان کو اپنے ايمان کي حفاظت کرنا لازمي ہے اسي طرح اپنے صحت کي حفاظت کرنا بھي ضروري ہے اور دونوں ميں سے کوئي بھي چيزنيم تربيت يافتہ شخص کے ہاتھوںميں پڑ گئي تو يہ خطرے کي علامت ہے- اس لئے جب بھي کوئي شخص اپنے مرض کا علاج کسي نيم حکيم سے کراتا ہے تو شفايابي کے بجائے مرض کے بڑھ جانے کے خدشات پيدا ہوتے ہيں-امراض اور ادويات کے سلسلے ميں ہماري وادي کي صورتحال يہ ہے کہ ہر کوئي شخص کسي نہ کسي بيماري کي نيم جانکاري رکھتا ہے اور اسي ادھوري جانکاري کي بنياد پر مريض کو مفت مشورے فراہم کرتا ہے- کئي لوگ تو اپنے ذاتي تجربے کي بنياد پر کسي دوسرے شخص کو طبي مشورہ دے کر ادويات لينے کي صلاح ديتے ہيں- حالانکہ کئي بار ايسا بھي ہوتا ہے کہ دوبيماريوں کے اسباب مختلف ہوتے ہيں اور علامات ايک جيسي-اس طرح ايک تربيت يافتہ طبيب ہي مرض کي مکمل تشخيص کرکے بہتر علاج کرسکتا ہے- ايک بيمار بيماري کي حا لت سے نجات پانے کي خاطر ہر کسي کے مشورے پر عمل کرنا چاہتا ہے- اس طرح بيمار کبھي کبھي ايک ايسي صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے جہاں اس کے مرض کے علاج کے ممکنات کم ہو جاتے ہيں-اگر کبھي کبھار کوئي مريض راحت محسوس کرتا ہے ليکن يہ راحت عارضي اور علامتي ہوتي ہے جبکہ از خود ادويات استعمال کرنے سے ايک انسا ن کے جسم و صحت پر ايسے برے اور مضر اثرات پڑتے ہيں جن کي وجہ سے بعد ميں لينے کے دينے پڑ جاتے ہيں-جب کوئي شخص کسي بھي بيماري کيلئے از خود دوائياں ليتا ہے تو اکثر اوقات وہ اس قسم کي دوائياں ليتا ہے جن سے بہت جلد ''راحت'' ملے- اس قسم کي ادويات لينے ميں بہت سے نيم حکيموں کے مشوروں کا عمل دخل ہوتا ہے- ان ادويات کو ہم عام زبان ميںstrong medicinesياfast acting medicinesکہتے ہيں- چنانچہ ايک عام آدمي کسي بھي دوائي کے مضر اثرات (side effect)سے اچھي طرح سے واقف نہيں ہوتا ہے اس لئے احتمال اس بات کا رہتا ہے کہ جو دوائي خود لي جاتي ہے وہ راحت دينے کے بجائے تکليف کو اور بڑھادے- اس طرح دوائياں لينے سے ايک مريض ميں کسي مخصوص دوائي کے تئيں rsistanceبڑھ جاتي ہے اور پھر جب بعد ميں مريض کو پتہ چلتا ہے کہ اس کي بيماري ميں کوئي خاص فرق نہيں آيا ہے تو وہ ايک پيشہ ور ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے- ليکن اس وقت ايک ڈاکٹر کو ايسي ادويات تجويز کرنا پڑتي ہيں جو کافي سٹرانگ (more stronger)ہوتي ہيں کيونکہ اس قسم کے مريض معمول کي ادويات کے تئيں resistantہوگئے ہوتے ہيں-کشمير ميں ايک بات عام ہو گئي ہے کہ يہاں بيچي جانے والي ادويات غير معياري ہوتي ہيں اور کسي بھي مريض کے مرض پر کوئي اثر نہيں کرتيں- ليکن کسي نے اس بات کي طرف کوئي توجہ نہيں دي ہے کہ لوگ از خود ادويات کا بے جا استعمال کرکے ادويات کے تئيں اپني resistanceبڑھاديتے ہيں- ميں يہ دعويٰ ہرگز نہيں کرتا کہ جو بھي ادويات يہاں دستياب ہيں وہ سب کي سب اعليٰ معيار کي ہيں کيونکہ کچھ ادويات کا غير معياري ہونا خارج از امکان قرار نہيں ديا جاسکتا- ليکن اس بات سے بھي انکار ممکن نہيں کہ ادويات کے بے اثر ہونے کيلئے ہماري self medicationکا بھي ہاتھ ہے- (جاری ہے)


متعلقہ تحریریں:

شياٹيکا کے بارے ميں جانکاري

دماغ کو ہر عمر ميں تيز رکھنے کے 10 بہترين طريقے