• صارفین کی تعداد :
  • 5007
  • 2/1/2014
  • تاريخ :

بي بي پاکدامن ،اسلام کي روشني  ( حصّہ دوّم )

بی بی پاکدامن ،اسلام کی روشنی  ( حصّہ دوّم )

بہن کا تردّد ديکھ کر امام عالي مقام نے بي بي رقيّہ سے ناجانے کيا رازونياز کئے کہ وہ قافلۂ کربلا سے جدا ہو کر برّصغير کے لئے روانہ ہو گئيں اس طولاني سفر ميں ان کے ہمرا ہ ان کي دو کمسن بيٹياں اور جناب حضرت مسلم بن عقيل کي دو کمسن بہنيں اور ايک کام کرنے والي خادمہ حليمہ (المعروف مائي تنوري ،کيونکہ وہ تندور پر روٹياں پکاتي تھيں) اور بروا ئتے تين يا چار مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،يہ قافلہ ء بے وطن جنگل کے ايک ٹيلے پر قيام پذير ہوا اس وقت دريائے راوي کے کنارے دور تک جنگل ہي جنگل پھيلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ايک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا جس کے راج کمار کا نام کنور بکرما ساہر تھا اور اس راجدھاني ميں بت پرستي کا رواج تھا بستي کے مندروں ميں کبھي نا بجھنے والي آگ جلتي رہتي تھي-

ان غريب الوطن اہلبيت کے افراد کو يہاں پہنچے ہوئے چند روز ہي گزرے تھے کہ راجہ کے محل ميں اونچے چبوتروں پر رکھّے ہوۓ  سنگي بت محل کے فرش پر اوندھے منہ گر گئے اور راجہ کي راجدھاني کے آتش کدو ں ميں جلنے والي صديوں پراني آگ جو مقدّس آگ ماني جاتي تھي وہ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو ديکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اور بستي کے اندر بھي کہرام مچ گيا کہ ان کے ديوتاۆں کا يہ حشر کيوں کر ہو گيا ،راجہ نے فوراً محل ميں نجوميوں اور جوتشيوں کو طلب کرکے پوچھا کہ يہ کيا ماجرہ ہوا ہے -  نجوميوں اور جوتشيوں نے ستاروں کي چال سے حساب کرکے بتايا کہ ائے راجہ تيري راجدھاني ميں کچھ پرديسي وارد ہوئے ہيں جن کي وجہ سے يہ حال ہوا ہئے اور ستاروں کي چال بتا رہي ہے کہ بہت جلد تيري حکومت بھي سر نگوں ہو جائے گي ،نجوميوں کي بات سن کر راجہ نے فوراً ايک کماندار کو طلب کيا اور کہا کہ ابھي ابھي ان پرديسيوں کو ہمارے سامنے محل ميں حاضر کيا جائے،،کماندار سپاہيوں کو لے کر گيا اور پورا شہر چھان مارا ليکن کہيں بھي کوئي نو وارد اجنبي انہيں نظر نہيں آيا ،ليکن جب وہ پرديسيوں کي تلاش ميں جنگل کي جانب گئے تو وہاں انہوں نے ديکھا کہ جنگل کي لکڑيوں کے سہارے چادروں کا ايک خيمہ نصب ہئے جس ميں اجنبي مسافر ٹھہرے ہيں ،،کماندار نے خيمے کے باہر سے آواز دي کہ پرديسيوں ہمارے ساتھ چلو تمھيں ہمارا راجہ بلاتا ہے - ( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

 سيد جمال الدين کو دور بين نظر تھے

اقبال اور سيد جمال الدين افغاني