• صارفین کی تعداد :
  • 2344
  • 1/26/2014
  • تاريخ :

اردو ادب ميں مرثيہ نگاري  ( حصّہ چہارم )

اردو ميں بہت سارے شعراء حضرات نے مرثيہ نگاري ميں اپنا نام کمايا - مير انيس اور مرزا دبير کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے مرثيہ ميں انسان کے پاکيزہ جذبات، اعليٰ اخلاقي اقدار، زندگي اور معاشرت کے تمام اہم پہلوئوں کو دلکش و موثر انداز ميں پيش کرکے ايسي شاعرانہ فضا پيدا کي ہے کہ حقيقي اسلامي اقدار اور کردار کے دلکش مرقعے مجسم ہوگئے ہيں- معاشرتي زندگي کے تمام پہلو بے حد واضح ہيں، مثلاً بندگيء رب اور اطاعت الٰہي، وفاداري، شجاعت و جوانمردي، شرافت، رشتوں کا اقدام، امام عالي مقام کي پيروي، بزرگوں کا ادب، چھوٹے پر شفقت، ناموس رسالتطگ کے مقام سے آگاہي وغيرہ- اس کے علاوہ معاشرے ميں جہاں صاحب ايمان اور پر خلوص و اطاعت گزار بندے ہوتے ہيں اسي ميں ظالم، بدکردار، حرص و ہوس کے غلام اور اï·² تعاليٰ کے نافرمان بھي موجود ہوتے ہيں، لہٰذا لشکر يزيد ميں اسي طرح کے کرداروں کو بھي پيش کيا گيا ہے- غرض يہ کہ مرثيہ ميں ايسي فضا پيدا کي جاتي ہے کہ معاشرے کے اعليٰ کردار و اقدار نہ صرف سامنے آتے ہيں بلکہ باطل پرستوں کے چہرے بھي بے نقاب ہوجاتے ہيں- مرثيے کے ذريعے اصلاح معاشرے کي بہترين کوشش کي جاتي ہے-

پيغمبر اسلام (ص) اور حضرت امام حسين عليہ السلام سے ہندوستانيوں کي گہري عقيدتي وابستگي کے باعث اردو زبان ميں مرثيہ نگاري کو جو مقام اور توجہ حاصل ہوئي، وہ کسي اور زبان ميں حاصل نہ ہو سکي- صرف خاندانِ انيس کو ہي ليجئے، اس خاندان نے آٹھ پشتوں تک خود کو صرف اور صرف مرثيہ نگاري کے لئے وقف کئے رکھا ہے- دنيائے ادب ميں کسي صنف سخن سے اس طرح کي خانداني وابستگي کسي دوسري زبان ميں نہيں ملتي- مير انيس خود فرماتے ہيں کہ

اس ثناء خواں کے بزرگوں ميں ہيں کيا کيا مداح

جدّ اعلٰي سا نہ ہوگا کوئي اعلٰي مداح

باپ مداح ہے داد مداح

عم ذيقدر ثناء خوانوں ميں ہے يکتا

مداح جو عنايات الٰہي سے ہوا نيک ہوا

نام بڑھتا گيا جب ايک کے بعد ايک ہوا

اس صنف ادب کے تناظر ميں جب ہم آج مسلم ممالک بالخصوص وطن عزيز کي ثقافتي تہذيبي اور اخلاقي صورت حال کا جائزہ ليتے ہيں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب، شعر و شاعري بلکہ تمام فنون لطيفہ سے رو گرداني کرکے ہم نے جو نقصان کيا ہے اس کا ازالہ اسي صورت ممکن ہے کہ ہم تعليمي اداروں ميں اردو کي بگڑتي صورتحال پر فوري توجہ ديں، کيونکہ ادب اور اديب ہي کسي معاشرے کو متوازن رکھتے ہيں- ہمارے درميان جو حق گوئي و حق پرستي کا فقدان ہے آج ہمارا دين ايمان اخلاق جھوٹ دھوکا، فريب حرص و ہوس، ہمارا خدا دولت ہے، اس کي اصل وجہ ادب کو فضول اور غير ضروري گرداننا ہے- ( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

زيارت کا عظيم مقام

کربلا کي بلندي